دشت میں اک چراغ

مبصر: سعود عثمانی

عاصم ممتاز کے شعری مجموعے ’’دشت میں اک چراغ‘‘ کا مسودہ میں نے کئی مصروفیات کے بیچ پڑھنا شروع کیا تھا لیکن اس نے آہستہ آہستہ خودکو میری اولین مصروفیت بنا لیا۔ میں نے اس البیلے شاعر کا تعارف اسی شاعری سے حاصل کیا۔ شاعری اگر دل سے نکلی ہوئی ہو ، اور جذبوں کی سچائی لفظوں میں چمکتی ہو تو اپنے شاعر کے بارے میں معلومات مصرع بہ مصرع فراہم کرتی جاتی ہے۔ یہی نہیں اس کا مزاج، اس کی شعری تربیت اور ریاضت کا سراغ بھی انہی لفظوں سے اس طرح ملتا ہے جیسے ایک ڈی این اے ایک پورے وجود کی خصوصیات اپنے اندر سموئے ہوتا ہے۔ تو ایک مصرع بھی ان لفظوں کی روداد بتا رہا ہوتا ہے جو اس مصرعے میں موجود نہیں ہوتے۔
’’دشت میں اک چراغ‘‘ غزلیات پر مشتمل مجموعہ ہے۔ عاصم ممتاز کا رجحان چھوٹی بحر کی غزلیات کی طرف زیادہ ہے۔ اگرچہ دیگر بحور میں بھی انہوں نے عمدہ شعر کہے ہیں۔ چھوٹی بحر بڑا امتحان ہوتی ہے اور عاصم نے ان میں بہت تازہ شعر نکالے ہیں۔

بادل کو برسایا تو نے
پھولوں کو مہکایا تو نے
دھوپ میں تجھ کو یاد کیا تو
مجھ تک بھیجا سایہ تو نے

ہم تو دل کے مرید ہیں سائیں
کارِ دنیا دماغ جیسا ہے

تجھ سے خائف بھی بہت ہوں دنیا
ایک مدت سے طلب گار بھی میں

یہ کرشمہ بھی محبت کا ہے کہ وہ کلاسیکی اساتذہ سے لے کر آج تک کے ہر شاعر کو اپنی محبت سے نواز دیتی ہے۔ جو اسے اپنا لے، وہ اسے اپنا لیتی ہے۔ عاصم ممتاز کے یہ شعر بھی اس کی دلیل ہیں۔

جینے میں برکت پڑتی ہے
تم بھی کسی کے ہو کر دیکھو

تجھ کو کھو کر میں کیسے زندہ ہوں
ایک مشکل سوال ہے سائیں

دسترس اس کی ہے مجھ دریا پر
جیسے چاہے وہ بہا لے مجھ کو

عاصم ممتاز سے میری ملاقات نہیں ہے لیکن اس مسودے کو جستہ جستہ دیکھتے ہوئے دل چاہا کہ اس سے کبھی بالمشافہ ملاقات بھی ہو۔ میں اس کے شعری مستقبل کے لیے دعا گو بھی ہوں اور اس کا یہ شعر اسی کو یاد دلاتے ہوئے ملاقات کا خواہاں بھی ہو ں ۔

مل مجھے اس طرح کہ جیسے کوئی
راستہ راستے سے ملتا ہے

سعودؔ عثمانی
لاہور ۔ 11 مئی 2020ء

کتاب کے حصول کے لیے یہاں کلک کیجئے