Shayad by Jaun Elia
شاید
جونؔ ایلیا
انتساب
اپنے سنجھلے بھائی سید محمد عباس
اور
اپنے بہنوئی ڈاکٹر سید محمد شفاعت کے نام
1990ء

نیازمندانہ
یہ میرا پہلا مجموعہء کلام یا شاید پہلا اعترافِ شکست ہے جو انتیس تیس برس کی تاخیر سے شائع ہو رہا ہے۔ یہ ایک ناکام آدمی کی شاعری ہے۔ یہ کہنے میں بھلا کیا شرمانا کہ میں رایگاں گیا۔ مجھے رایگاں ہی جانا بھی چاہیے تھا۔ جس بیٹے کو اس کے انتہائی خیال پسند اور مثالیہ پرست باپ نے عملی زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ نہ سکھایا ہو، بلکہ یہ تلقین کی ہو کہ علم سب سے بڑی فضیلت ہے اور کتابیں سب سے بڑی دولت، تو وہ رایگاں نہ جاتا تو اور کیا ہوتا؟
اب سے انتیس تیس برس پہلے میں نے اپنے بچپن کے دوست، قمر رضی سے وعدہ کیا تھا کہ میرا پہلا مجموعہ تمہی چھواؤ گے مگر میں نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا۔ اس کے بعد ۱۹۷۱ء میں میرے بھانجے شمن (ممتاز سعید)، محمد علی صدیقی، حسن عابد اور راحت سعید نے میرے مجموعے کا مواد مرتب کر کے میرے حوالے کیا تاکہ میں اسے چھوادوں مگر میں نے ان کی خواہش بھی پوری نہیں کی۔ اس کے بعد زاہدہ حنا نے سب سے زیادہ کاری کارروائی کی۔ میری جو نظمیں اور غزلیں ان کے ہاتھ لگیں، انہوں نے ان کی کتابت شروع کرادی مگر میں نے باقی چیزیں انہیں فراہم نہیں کیں۔ چنانچہ ان کی کوشش بھی بے نتیجہ رہی۔ اس کے کئی برس بعد میرے بھائی اور دوست معراج رسول نے مجموعے کی اشاعت کا ایک شان دار برنامہ بنایا مگر میں اپنی دس برس کی عذاب ناک بے خوابی اور اپنے دماغی دوروں کے باعث اس قابل نہیں تھا کہ اپنا مجموعہ مرتب کر سکوں۔
 آپ سوچتے ہوں گے کہ میں نے اپنا کلام نہ چھپوانے میں آخر اتنا مبالغہ کیوں کیا ؟ اس کی وجہ میرا ایک احساسِ جرم اور روحانی اذیت ہے، جس کی روداد میں آگے چل کر سناؤں گا۔ یہاں میں اپنے ان محسنوں ، اپنے اُن محبوب اور محترم محسنوں کے نام گنانے کی مسرت حاصل کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے میری تباہ کن اور عذاب ناک بیماری میں میری غم گساری اور دل داری کی۔ اگر وہ میری غم گساری اور دلداری نہ کرتے تو مجھے نہ ارسطو اور شیخ الرئیس کی منطق خود کشی سےبچا سکتی تھی نہ بیکن اور مل کی منطق …وہ محبوب و محترم نام یہ ہیں۔ قبلہ و کعبہ پروفیسر کرار حسین، برادرِ محترم سید عابد علی شاہ ، یارِ عزیز حسن امام جعفری، عزیز القدر اقبال مہدی (مشہور مصور ) ،برادر دل جو معراج رسول، عزیزی سلطان کاظمین ، عزیزِ عزیزاں شمس الدین صدیقی ، مونسِ شامِ بیزاری جمال احسانی، بر اور مکرم جناب منظور احمد ( ڈھاکا ) ، جناب جمیل الدین عالی، میرا ہم مشرب ندیم اختراور حبیبی حفیظ با حلیم۔
۱۹۸۶ء کا ذکر ہے ، میری حالت گذشتہ دس برس سے سخت ابتر تھی۔ میں ایک نیم تاریک کمرے کے اندر ایک گوشے میں سہما بیٹھا ہتا تھا۔ مجھے روشنی سے ، آوازوں سے اور لوگوں سے ڈر لگتا تھا۔ ایک دن میرا عزیز بھائی سلیم جعفری مجھ سے ملنے آیا۔ وہ چند روز پہلے دبئی سے کراچی آیا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ جون بھائی ، میں آپ کو فرار اور گریز کی زندگی نہیں گزار نے دوں گا۔ آپ نے مجھے میرے لڑکپن سے انقلاب کے، عوام کی فتح مندی اور لا طبقاتی سماج کے خواب دکھائے ہیں۔ میں نے کہا،’’ تجھے معلوم ہے کہ میں سالہا سال سے کس عذاب میں مبتلا ہوں ؟ میرا دماغ، و ، دماغ نہیں،بھوبل ہے۔آنکھیں ہیں کہ زخموں کی طرح چپکتی ہیں۔ اگر پڑھنے یا لکھنے کے لیے کاغذ پر چند ثانیوں کو بھی نظر جماتا ہوں تو ایسی حالت گزرتی ہے جیسے مجھے آشوبِ چشم کی شکایت ہو اور ماہِ تموز میں جہنم کے اندر جہنم پڑھناپڑرہا ہو۔ یہ دوسری بات ہے کہ میں اب بھی اپنے خوابوں کو نہیں ہارا ہوں۔ میری آنکھیں دہکتی ہیں مگر میرے خوابوں کے خشک چشمے کی لہریں اب بھی میری پلکوں کو چھوتی ہیں۔‘‘
 سلیم نے کہا کہ میں آپ کو دبئی اور امارات کے دوسرے مشاعروں میں مدعو کرنے کے لیے آیاہوں تا کہ آپ مجمع میں واپس آجائیں۔
مارچ ۱۹۸۶ء میں مجھے سلیم کے انتہائی اصرار پر دبئی جانا پڑا۔ اور اس طرح دبئی میں میرا ظہورِ ثانی ہوا۔ وہیں ایک شام سلیم کے یہاں میں، سلیم اور یارِ عزیز منصور جاوید اپنے نجی اور ذاتی لمحے گزار رہےتھے۔ اچانک منصور نے کہا۔ ’’جون ! مجھے تمہارا مسودہ چاہیے ۔‘‘
 شاید ایسا ہے کہ بعض رشتوں کی نسبت سے بعض لمحے، بعض بے حد ذاتی لمحے ، بہت فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ وہ لمحے بھی کچھ ایسے ہی تھے۔ میں نے منصور جاوید کے ہونٹوں کا کہا ، سنا اور اس کی آنکھوں کا کہا مان لیا۔ مجموعے کی اشاعت کے منصوبے پر عمل در آمد کرانے کی ذمے داری سلیم کے سپرد ہوئی مگر میں نے اس منصوبے پر نہ ۱۹۸۶ء میں عمل ہونے دیا نہ ۱۹۸۷ء میں۔ آخر دونوں کےمسلسل اصرار سے مجبور ہو کر جولائی ۱۹۱۸ء میں اپنے اوراقِ پریشاں لے کر بیٹھا۔
میں جس اذیت ناک حالت میں مجموعہ مرتب کرنے پر مامور ہوا تھا، اُس حالت میں شاید ہی کسی شاعر نے اپنا مجموعہ مرتب کیا ہو۔ میں اس حالت سے کہیں زیادہ اذیت ناک حالت میں تھا اور ہوں ، جس میں دسویں صدی عیسوی کے عظیم المرتبت ادیب اور مفکر ابو حیان توحیدی نے اپنے حالات سے تنگ آکر اور اس عہد کے ’’باذوق امرا‘‘ کی خوشنودی حاصل کرنے کی ناگوار مشقت سے بیزار ہو کر اپنی ناکام زندگی کے آخری لمحوں میں اپنی تصنیفات کے مسودے جلواد یے تھے۔
اب مجھے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ اس مجموعے میں کون کون سی نظمیں اور غزلیں شامل ہونی چاہیں ؟ میں نے یہ فیصلہ خود نہیں کیا بلکہ جمال احسانی، ندیم اختر اور ممتاز سعید پر چھوڑ دیا۔ جب انہوں نے فیصلہ کر لیا تو میں نے اور برادرِ عزیز عنیق احمد نے اس کا جائزہ لیا اور ان سے اتفاق کیا۔ اب جو سب سے اہم مرحلہ در پیش تھا، وہ ’’غیر مطبوعہ‘‘ کو ’’ مطبوعہ‘‘ بنانے کا مرحلہ تھا۔ یہ سب سے اہم اور جاں کاہ مرحلہ شکیل عادل زادہ نے سر کیا۔ اگر شکیل نہ ہوتے تو یہ مجموعہ شائع نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے صاحبِ دیوان بنانے میں سب سے اہم کردار شکیل ہی نے ادا کیا ہے۔ ان کے ساتھ ان کے دفتر کے سارے رفقا کئی ہفتے تک صبح و شام مصروف رہے ہیں۔ ان میں اکرام احمد ، اظہر عباس جعفری، سید حسن ہاشمی،سید افضال ملی، سید بابر علی، یوسف میمن، الیاس احمد اور صابر حسین پیش پیش رہے ہیں۔ مجموعے کی رونمائی کے موقع پر سلیم جعفری جو مجلہ شائع کر رہے ہیں، اس کے لیے آرا جمع کرنے اور مسودے کی عکسی نقول تیار کرانے کا تقریباً تمام کام میرے شاعر اور ادیب دوست اور چھوٹے بھائی جناب منظر علی خاں منظر ؔنے انجام دیا ہے اور میرے بچپن کے دوست قمررضی نے ان کے ساتھ مسلسل تعاون کیا ہے۔ منظر علی خاں کی مساعی کے بغیر مجلے کا صورت پذیر ہونا ممکن نہیں تھا۔ کتابت کے لیے مسودہ صاف کرنے کا کام قمررضی اور عزیزِ گرامی نفیس بزمی نے انجام دیا۔ میں منصور جاوید، سلیم جعفری اور اپنی طرف سے ان کا گہرے دلی جذبات کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں۔ برادر عزیزعنیق احمد کا حساب، محبت کی بے حساب کیفیات کے ساتھ میرے دل میں ہے۔
آخر میں مجھے ساقی کوثر کے غلام اور شہر کے رندِ نیک نام سرفراز احمد خان یوسف زئی کا شکریہ ادا کرنا ہے جنہوں نے میرے لیے ایک ایسی کیف آگیں فضا پیدا کی کہ میرا ذہن تخلیقی کام کرنے کے قابل ہوسکا۔
میں نے اپنے مجموعے کے لیے جو مقدمہ لکھا تھا ، وہ سوا دو سو صفحات سے متجاوز ہو چکا ہے اور ہنوز نا مکمل ہے۔ معین وقت میں اس کی تکمیل و طباعت ممکن نہیں۔ اس صورت میں عزیزم انور (انور شعور ) نے یہ مناسب سمجھا کہ اس ناتمام دیباچے کی تلخیص کر دی جائے۔ چنانچہ اس کی تلخیص ہی پیش کی جارہی ہے۔
میں دو آبہ گنگ و جمن کے حالت خیز، رمزیت آمیز اور دل انگیز شہر امروہہ میں پیدا ہوا۔ امروہے میں نہ جانے کب سے ایک کہاوت مشہور چلی آرہی ہے کہ امروہہ شہر تخت ہے، گزران یاں کی سخت ہے، جو چھوڑے وہ کم بخت ہے، مجھے نہیں معلوم کہ شمالی ہند کے پہلے مثنوی نگار سید اسمٰعیل امروہوی، شیخ غلام ہمدانی مصحفی، نسیم امروہوی، رئیس امروہوی، سید محمد تقی، سید صادقین احمد، محمد علی صدیقی اور اقبال مہدی نے امروہہ چھوڑ کر اپنے آپ کو کم بخت محسوس کیا تھا یا نہیں ،مگر میں نے …بہر حال…
 وہ ایک مشرق رویہ مکان تھا۔ اس کا طرئہ دالان آخرِ شب سے آفتاب کا مراقبہ کیا کرتا تھا۔ اُس مکان میں رات دن روشنیِ طبع اور روشنائی کی روشنی پھیلی رہتی تھی۔ شعر و ادب کا سلسلہ ہمارے یہاںکئی پشتوں سے چلا آرہا ہے۔ ہمارے بابا علامہ سید شفیق حسن ایلیا چار بھائی تھے اور چاروں کے چاروں شاعر تھے۔ سید نفیس حسن وسیم، سید انیس حسن ہلال ( بھائی کمال امروہوی کے والد ) سید وحید حسن رمز (اور گدؔا) اور بابا ۔ بابا کے والد سید نصیر حسن نصیرؔ بھی شاعر تھے۔ وہ صرف مستط کہتے تھے۔ بابا کے دادا سید امیر حسن امیرؔ اردو اور فارسی دونوں میں شعر کہتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ایک صاحبِ طرز نثر نگار بھی تھے۔ سید امیر حسن کے دادا سید سلطان احمد ، میر تقی میر کے ارشدِ تلامذہ سید عبدالرسول ناگراکبر آبادی کے شاگر دتھے۔ ہمارے محلے کے جد ا علیٰ سید ابدال محمد انہیں دلی سے اپنے ساتھ امروہہ لے آئے تھے۔ انہوں نے اپنی باقی زندگی ہمارے قدیم دیوان خانے میں گزاری اور ہمارے جد اعلیٰ کےمقبرے کے مغربی جانب دفن ہوئے۔
مصحفی ہفتے عشرے بعد ان سے ملنے آیا کرتے تھے۔ وہ اپنے ’’ تذکرئہ ہندی گویاں‘‘ میں لکھتے ہیں۔’’میر سید عبد الرسول نثارؔ مردیست جہاں دیدہ و فہمیدہ ۔اصلش از اکبر آباد است۔ فقیر او را در ابتدائے شاعری در قصبہء امروہہ دیدہ بود۔ اکثر بعدِ ہفتہ و عشرہ ملاقات وتذکرئہ شعر بہ میاں می آمد ۔‘‘
جب میں نے ہوش کی آنکھیں کھولیں تو اپنے گھر میں صبح سے شام تک شاعری، تاریخ، مذاہبِ عالم، علم ہیئت (ASTRONOMY) اور فلسفے کا دفتر کھلا دیکھا اور بحث مباحثے کا ہنگامہ گرم پایا۔ اس تمام سرگرمی کا مرکز ہمارے بابا علامہ سید شفیق حسن ایلیا تھے۔ وہ کئی علوم کے جامع تھے اور کئی زبانیں جانتے تھے یعنی عربی، انگریزی، فارسی، عبرانی اور سنسکرت ۔ وہ صبح سے شام تک لکھتے رہتے تھے اور تقریباً اس یقین کے ساتھ کہ ان کا لکھا ، چھپے گا نہیں۔ علم ہیئت سے انہیں خاص شغف تھا۔ ہیئت کے مسائل سے متعلق رصد گاہ گرینچ ( Green Wich Observatory ) انگلستان کے علماء اور ماہرین ، برٹرینڈ رسل اور جنوبی ایشیا کی ایک رصد گاہ کے ڈائریکٹر نرمیان سے ان کی خط و کتابت ہوتی رہتی۔ تھی ۔ وہ تصنیف و تالیف کی دلچسپ مشقت سے چون پچپن برس تک محفوظ ہوتے رہے۔
وہ قلم ہی کے نہیں، مو قلم کے بھی آدمی تھے۔ ہیئت کے نقشوں کے علاوہ انہوں نے امام حسینؑ کے سفرِ کربلا کی منزلوں اور کربلا کے میدانِ واقعہ کے نقشے بھی بنائے تھے۔ ان نقشوں میں تاریخ اور مقاتل کے سیکڑوں حوالے پیش کیے گئے ہیں۔ مشہور مصور اقبال مہدی جو میرا بھتیجا ہوتا ہے ، موقلم کے فن میں بابا کا واحد وارث ہے۔ بابا نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنے مو قلم اور دوسری متعلقہ چیزیں للّن ( اقبال مہدی ) ہی کو دی تھیں۔ دانتے کے بعد بابا شاید وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے کائنات کی نواحی اور ضواحی سے معاملت رکھنے کا فنی ثبوت فراہم کیا تھا۔ انہوں نے جنت اور جہنم کا ایک نقشہ بنایا تھا۔ اس نقشے میں انہوں نے اپنے وجود کے باطنِ باطن اور کامنِ کامن کے جمال و جلال کو مکمل احساسِ آئینی کے ساتھ پیش کیا تھا۔ انہوں نے جنت میں اپنی ذاتِ ذات اور صفاتِ صفات کے تمام رؤوف اور عطوف رنگ کھپارہے ہیں۔ اب رہا جہنم ، تو جہنم میں انہوں نے بے حد جارحانہ ، سفاکانہ اور بینائی سوز رنگ استعمال کیے ہیں اور ان کی تدریجات ( Shades ) اور ان تدریجات کی طولی و عرضی اضافتوں کے ذریعے نقشے میں ایک عجب شدیدیت پیدا کر دی ہے ۔ ان کے تمام جاننے والے جانتے ہیں کہ انہوں نے زندگی میں کبھی ایک بار بھی غصہ نہیں کیا۔ مگر میرا خیال ہے کہ انہوں نے زندگی میں ایک بار ضرور غصہ کیا تھا اور وہ جہنم ان کا غصہ تھا۔
یہ دو بعدی جنم اُن کے ارتیابی، لا ادری اور زندیق بیٹے جون ایلیا کے حق میں سہ بعدی ہو گیا ہے اور وہ اس جنم کے درکِ اسفل میں جل رہا ہے ، بھڑک رہا ہے، دہک رہا ہے مگر راکھ نہیں ہو پاتا۔
بابا امروہے کی مسلمان اشرافیہ کے افراد کی اکثریت کے برعکس نسلی برتری اور طبقاتی تفریق کے سخت مخالف تھے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے یہاں ذاتی ملکیت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا تھا۔ وہ اپنے استعمال کی بنیادی اور ناگزیر اشیاء کو بھی ذاتی ملکیت میں شمار نہیں کرتے تھے۔ ’’میرا بستر، میری چادر میرا تکیہ، میرا بکس، میری الماری‘‘ اس نوع کے مفاہیم ذہن میں رکھنا اور انہیں زبان پر لانا وہ سخت غیر مہذب اور غیر شریف ہونے کی علامت سمجھتے تھے۔ مذکورہ الفاظ کے برعکس جو الفاظ ان کی زبان سےتقریباً روزانہ سنے جاتے تھے، وہ تھے۔ ’’ہماری زمین، ہمارا نظامِ شمسی، اور ہماری کہکشاں ۔ ’’ وو سیاسی آدمی نہیں تھے ، ایک عالم اور شاعر تھے ۔ اگر وہ سیاسی آدمی ہوتے تو کمیونسٹ ہوتے۔
عطارد، مریخ، زہرہ اور مشتری وغیرہ کا ہمارے گھر میں اتناذ کر ہوتا تھا جیسے یہ سیارے ہمارے افرادِخانہ میں شامل ہوں ۔ ’’ یوری نس‘‘ اس زمانے میں نیا نیا دریافت ہوا تھا۔ بابا اس عزیز القدر کےبارے میں اتنی باتیں کرتے تھے کہ اماں کو اس سے چڑ ہو گئی تھی۔ بابا کو زمین کی حرکت کے مسئلے کے سوازمین کے کسی بھی مسئلے اور معاملے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ میں بچپن میں بے آرامی کے ساتھ اکثریہ سوچا کرتا تھا کہ زندگی کے بارے میں بابا کا یہ رویہ ہمارے گھر کو تباہ و برباد تو نہیں کر دے گا۔ میں اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتا رہتا تھا۔ میں نے سالہا سال بعد اسی کیفیت میں بابا کی ایک ہجو کی۔ اس کاپہلا بند مجھے یاد رہ گیا ہے ۔
زبان و ذہن کا بخیہ، زردہ زردہ جامہ
پھٹی ہوئی ہے دُلائی بنے ہیں علامہ
وہ مسئلے ہیں کہ مفہومِ زندگی گم ہے
ہے کس کو فہم کا یارا جنابِ فہامہ
موسم سرما کی ایک سہ پہر تھی، میرے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ بابا مجھے شمالی کمرے میں لے گئے ۔ نہ جانے کیوں وہ بہت اداس تھے۔ میں بھی اداس ہو گیا۔ وہ مغربی کھڑکی کے برابر کھڑے ہو کر مجھ سےکہنے لگے کہ تم مجھ سے ایک وعدہ کرو۔ میں نے پوچھا۔ ’’ بتائیے بابا ! کیا وعدہ ؟‘‘
انہوں نے کہا ” یہ کہ تم بڑے ہو کر میری کتابیں ضرور چھواؤ گے۔‘‘
 میں نے کہا ’’ بابا میں وعدہ کرتا ہوں کہ جب بڑا ہو جاؤں گا تو آپ کی کتابیں ضرور ضرور چھواؤں گا۔‘‘
مگر میں بابا سے کیا ہوا یہ وعدہ پورا نہیں کر سکا، میں بڑا نہیں ہو سکا۔ اور میرے بابا کی تقریباً تمام تصنیفات ضائع ہو گئیں۔ بس چند متفرق مسودے رہ گئے ہیں۔ یہی میرا وہ احساس جرم ہے جس کےسبب میں اپنے کلام کی اشاعت سے گریزاں ہی نہیں، متنفر رہا ہوں۔ جس طرح بابا چار بھائی تھے، اسی طرح اب سے ایک برس پہلے ہم بھی چار بھائی تھے۔ رئیس امروہوی، سید محمد تقی، سید محمد عباس اور میں۔ بڑے بھائی ہمارے بابا اور ہماری اماں کی پھلواری کا سب سے بڑا اور سب سے خوش رنگ پھول تھے۔ وہ پھول گولی کا نشانہ بنا دیا گیا۔ قاتل شاید ان کا مرتبہ شناس تھا۔ اسی لیے اُس نے ان کے دماغ کو اپنا ہدف قرار دیا۔ بھائی دماغ ہی تو تھے اور کیا تھے۔
 میرے بچپن اور لڑکپن کے زمانے میں بھائی کی شاعری عروج پر تھی۔ وہ رومانی اور انقلابی نظمیں کہا کرتے تھے۔ وہ شاعری کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھے۔ انہیں غیر معمولی ذہین اور حسین کہہ کر کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ان کے بارے میں کچھ نہ کہا گیا ہو۔ جب وہ عرفی کے حسن اور اس کی قادرالکلامی کا ذکر کرتے تھے تو مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے خود عرفی اپنا ذکر کر رہا ہو۔ منجھلے بھائی سید محمد تقی بھی اُس زمانے میں شاعری کرتے تھے لیکن ان کا اصل میدان فلسفہ تھا۔ میں نے اُن سے زیادہ مطالعہ کرنے والا آدمی آج تک نہیں دیکھا۔ وہ ایک متبحر عالم ہیں۔ میرے یہ دونوں بھائی اس زمانے میں وطن پرست کمیونسٹ تھے اور کھدر کے کپڑے پہنتے تھے۔ اگر میں بھی اس وقت سن بلوغ کو پہنچ گیا ہو تا تو وطن پرست کمیونسٹ ہوتا۔ میرے منجھلے بھائی سید محمد عباس بم بنانے کی ترکیب سیکھنے کے لیے بے تاب رہا کرتے تھے تاکہ سرکاری عمارتیں بم سے اڑا سکیں۔ وہ مجھے ہندوستانی انقلابیوں کے قصے سنایا کرتے تھے۔ مجھے انگریز سامراج سے نفرت دلانے میں سب سے اہم کردار انہوں نے ہی ادا کیا۔ میں نے اپنے بھائیوں سے جتنا سیکھا ہے، اس کا شاید ہی کسی کو اندازہ ہو۔
میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے ، پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دو چار ہوا، یعنی ایک قتالہ لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا۔
چاہ میں اس کی تمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی
جس دن پہلا حادثہ پیش آیا تھا، وہ دن نہ ہفتے کے دنوں میں سے کوئی ایک دن تھا اور نہ مہینوں کے دنوں میں سے کوئی ایک دن ۔ وہ دن تو سال کے تین سو پینسٹھ دنوں کے علاوہ ہی کوئی دن تھا۔ وہ تاریخ اور تقویم کا کوئی دن نہیں تھا۔ بلکہ زمان ِمطلق یا دہر (Absolute time ) کا کوئی دن تھا ۔اگر زمانِ مطلق یا دہر کا کوئی دن فرض کیا جا سکتا ہو تو… میں نے اظہارِ محبت کا جو طریقہ اختیار کیا تھا،وہ انتہائی عجیب و غریب تھا۔ وہ طریقہ یہ تھا کہ اگر وہ سامنے سے آرہی ہوتی تو میں اس کی طرف سے منہ پھیر لیتا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اے لڑکی! میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ میں اظہارِ محبت کو انتہائی ذلیل کام سمجھتا تھا اور اپنے اچھے دنوں میں ، میں نے یہ ذلیل کام کبھی نہیںکیا۔
پلوٹینس نے ایک جگہ لکھا ہے ’’ مجھے اس بات پر بہت ندامت ہے کہ میں جسم میں ہو کر پایا جاتا ہوں۔‘‘ میں بھی اُس زمانے میں اس احمقانہ انداز میں سوچا کرتا تھا۔ میں نے اپنی افلاطونی محبت کی جو ہیکل تعمیر کی تھی، اس میں ہر وقت لوبان اور دوسرے بخورات کی خوشبو مہکتی رہتی تھی۔
 ایک دن کا ذکر ہے وہ لڑکی ہمارے گھر آئی۔ میں اس وقت کھانا کھا رہا تھا۔ میں نے اسے دیکھتے ہیں فور ًالقمہ نگل لیا، محبوبہ کے سامنے لقمہ چبانے کا عمل مجھے انتہائی نا شائستہ، غیر جمالیاتی اور بیہودہ محسوس ہوا تھا۔ میں اکثر یہ سوچ کر شرمندہ ہو جایا کرتا تھا کہ وہ مجھے دیکھ کر کبھی کبھی سوچتی ہوگی کہ میرے جسم میں، مجھ ایسے لطیف لڑکے کے جسم میں بھی معدے جیسی کثیف اور غیر رومانی چیز پائی جاتی ہے۔ اگر آپ تاریخ کے کسی ہیرو کا یا کسی دیوی کا مجسمہ دیکھ کر یہ سوچیں کہ زندگی میں اس شخصیت کے جسم میں معدہ بھی ہو گا اور انتڑیاں بھی تو آپ کے ذہن کو دھچکا لگے گا کہ نہیں؟
میں نے اس زمانے میں اپنے گھر میں نہ جانے کس سے کچھ اشعار سنے تھے۔ ان اشعار نے میرے پورے عہد ِنوجوانی میں ایک موثر مگر سخت منفی کردار ادا کیا اور مجھے کئی برس تک کے لیے راہ سے بے راہ رکھا، وہ شعر یہ تھے۔
میرا مرنا ان کے گھر شادی ہوئی
خون کے چھاپے لگے دیوار پر
مرتے دم تک رساؔ رہا خاموش
جاں گئی راز داریاں نہ گئیں
ہم ان سے نزع میں کچھ منفعل ہیں
پسینہ موت کا کیسا جبیں پر
تھوکتا ہوں جو لہو ، بوئے حنا آتی ہے
جس پہ مہندی تری پستی تھی وہی سل ہے مجھے
ان اشعار میں عاشق ایک ایسا نی جوان نظر آتا ہے جس نے تپ دق میں خون تھوک تھوک کر جان دی ہو۔ مجھے تپ دق کی بیماری بہت جمالیاتی ، شاعرانہ، ہیروانہ اور انقلابی محسوس ہوتی تھی۔ عام طور ر ذہین اور مفکر قسم کے انقلابی نوجوان اپنی شدتِ احساس اور اپنی بو، سیمین اور بے بندو بار زندگی کے نتیجے میں اپنی صحت ہار جاتے تھے اور تپ دق میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ وہ زمانہ تصوریت پسندی کا زمانہ تھا، جس کے سحر میں ذہین نوجوان ہی نہیں، من چلی لڑکیاں بھی مبتلا رہتی تھیں۔ اس زمانے میں باغی اور انقلابی نوجوان لڑکیوں کے ہیرو ہوتے تھے۔ یہ نوجوان کھدر کا پاجامہ، کھدر کا کرتا اور چپل پہنتے تھے۔ان کے بال بڑے بڑے اور الجھے ہوئے ہوتے تھے۔
تپ دق کی ’’انقلابی بیماری‘‘ جواں مرگی کی ایک جاں پرور ضمانت تھی۔ میرا خیال یہ تھا کہ صرف دائیں بازو کے کانگریسی، مسلم لیگی، احراری اور خاکسار نوجوان ہی طبعی عمر کو پہنچ کر وفات پانے کی ذلت برداشت کر سکتے ہیں۔ کوئی انقلابی نوجوان یہ ذلت برداشت نہیں کر سکتا۔ مجھے جواں مرگی میں ایک عجب مرموز اور محزوں حسن محسوس ہوتا تھا۔ بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں عرفی کے حسن، اس کی قادر الکلامی اور جواں مرگی کا بہت ذکر ہوا کرتا تھا۔ ان تینوں چیزوں نے مل کر میری نظر میں عرفی کو جمل و کمال کا ایک بے مثل مظہر بنا دیا تھا۔ میں بھی اُس زمانے میں جواں مرگی کی شدید آرزو رکھتا تھا۔ میری یہ آرزو تو پوری نہیں ہو سکی مگر حسنِ اتفاق سے پاکستان آنے کے بعد مجھے دق میں مبتلا ہونے کی لذت نصیب ہو گئی۔
میرے بچپن اور لڑکپن کا درمیانی دور سیاسی اعتبار سے بیحد ہنگامہ خیز دور تھا۔ مسلم لیگ اور کانگریس کی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں۔ قومیتوں کے مسئلے سے متعلق، اسٹالن نے جو موقف اختیار کیا تھا، اس کی روشنی میں ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان کے مطالبے کی تائید کا فیصلہ کیا تھا۔ چنانچہ بہت سے کمیونسٹ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے۔ ہمارے دونوں بڑے بھائیوں نے بھی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اسرار الحق مجاؔز اور مخدوم محی الدین نے پاکستان کے ترانے کہے تھے۔ بھائی (سید محمد تقی) نے ایک کتابچہ لکھا تھا جس کا نام تھا ” پاکستان اسٹالن کی نظر میں‘‘۔ آج یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اسلام کے لیے بنا تھا۔ اگر پاکستان اسلام کے لیے بنا ہوتا تو کم سے کم کمیونسٹ پارٹی مطالبہ پاکستان کی تائید نہیں کر سکتی تھی۔ یہاں ایک اور بات بھی قابلِ توجہ ہے اور وہ یہ کہ اگر پاکستان اسلام کے لیے بنا ہوتا تو یہ ایک مذہبی معاملہ ہوتا لہٰذا مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت مذہبی علماء کو حاصل ہوتی۔ جناح صاحب کے بجائے قائد اعظم کا خطاب کسی ’’قبلہ و کعبہ‘‘ یا کسی ’’حضرت مولانا‘‘ کو دیا گیا ہوتا۔ مسلم لیگ کی تحریک اپنے مزاج میں کلیسائی سیاست کی تحریک نہیں تھی۔ اس لیے مسلمانوں کی اکثریت نے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاؔد کے مقابلے میں مسٹر محمد علی جناح کی دل وجان سے حمایت کی۔ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ، خاص طور پر علی گڑھ کے طلبہ (جنھیں تعلیم کے بعد ملازمتیں درکار تھیں)، زمیں داروں جاگیرداروں چھوٹے تاجروں چھوٹے سرمایہ داروں اور مغربی وضع قطع کے لوگوں کی نمایندہ ترین تنظیم تھی۔ یہ لوگ نہ مذہبی تھے نہ غیر مذ ہبی۔ یہ لوگ مولویوں کو ایک خاص تحقیر آمیز انداز میں ’’ملا‘‘ کہتے تھے اور یہ لفظ انہیں علامہ اقبال نے سکھایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی ایک معاشی اور سماجی تحریک تھی جس نے بر صغیر کی ایک مشترک زبان کو مشرف بہ اسلام کیا۔ مجھے مسلم لیگ سے سخت شکایت ہے کہ اس نے میری زبان کو ایک غیر تاریخی تاریخیت کا تماشا بنا دیا۔ کاش یہ مضحکہ خیز کھیل بر صغیر کی دوسری زبانوں کے ساتھ بھی کھیلا جا سکتا۔
میں تقسیم سے پہلے اور اس کے چند سال بعد تک مذہبی علما کے صرف دو گروہوں کو قریب سے جانتا تھا، یعنی شیعہ علما اور دیوبندی علما۔ شیعہ علما کا موقف یہ تھا کہ صرف وہی حکومت اسلامی حکومت کہلا سکتی ہے جس کا مقتدرِ اعلیٰ معصوم اور منصوص من اللہ ہو۔ دوسری صورت میں مسلمانوں کی کوئی بھی حکومت جس کا مقتدر اعلیٰ چاہے کتنا بھی متقی و پرہیز گار ہو، اسلامی حکومت نہیں کہلا سکتی۔ حاصل یہ ہے کہ یہ علما سیکولر حکومت کے قائل تھے۔ عملی اور نظری طور پر یہی ان کا فیصلہ تھا اور یہی فتویٰ ۔ یہ حضرات سیاسی معاملات پر گفتگو کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔
علماء دیو بند وطن پرستانہ سیاست کے حامی تھے۔ آج یہ معاملہ بہت عجیب معلوم ہوتا ہے۔ مجھے ان علما کی جوتیاں سیدھی کرنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ وہ کسی طرح بھی دنیا دار قسم کے لوگ نہیں تھے۔ وہ درویشانہ زندگی گزارتے تھے اور انہوں نے افلاس اور فاقہ کشی کی زندگی رضا کارانہ طور پر اختیار کی تھی۔ میں عربی ادب اور فلسفے میں ان کا ایک ادنی شاگرد رہا ہوں۔ میں ان کا واحد شہری طالب علم رہ گیا تھا، جو اپنے ذاتی شوق میں عربی ادب اور فلسفہ پڑھ رہا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ مہینے میں ان علما کی فاقہ کشی کا کیا اوسط تھا ؟ جب میں ان کے بارے میں یہ سنتا تھا کہ یہ لوگ بکے ہوئے ہیں تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی۔ آپ اپنے نظریاتی حریفوں سے پوری شدت کے ساتھ اختلاف کیجیے مگر گالیاں تو نہ دیجیے۔
 تقسیم سے پہلے کمیونسٹوں کے سلسلے میں مذہبی علما کا مجموعی رویہ تقسیم کے بعد ظہور میں آنے والے مذہبی علما کے رویے سے یک سر مختلف تھا۔ شہرہ آفاق کمیونسٹ سید سجاد ظہیر کی سعادت مندی اورلیاقت پر آلِ غفراں مآب ، علمائے فرنگی محل، آلِ عبقات اور آلِ نجم الملت میں سے کسی کو کوئی شبہ نہیں تھا۔ اور ہمارے علاقے کے بلند مرتبہ انقلابی، کامریڈ ڈاکٹر اشرف کی دانش پژوہی اور آداب دانی علمائے دیوبند کے درمیان کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا تھا۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ مکتب دیو بند ڈاکٹر اشرف کی قابل قدر شخصیت کو مسترد کر کے اپنے عظیم الشان فرزند اور ڈاکٹر اشرف کے پیش رو مولانا عبید اللہ سندھی کے نام پر خط تنسیخ کھینچ دیتا!
ہمارے ماحول کا اپنے غیر مذہبی نوجوانوں کے بارے میں بہت فراخ دلانہ رویہ تھا۔ علما، ان کے باغیانہ اور منکرانہ خیالات سن کر مسکرا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ مطالعہ کرتے رہے تو راہِ راست پر آجائیں گے۔ ان ملحد نوجوانوں کے حق میں جو سب سے زیادہ نا مہربان بلکہ شدید فیصلہ صادر کیا جاتا تھا، وہ یہ تھا کہ پڑھ بہت لیا ہے، اس لیے ہضم نہیں ہوا۔ میرے ماحول میں حسن و قبحِ اشیاء کو عقلی سمجھا جاتا تھا نہ کہ شرعی، یعنی چیزوں کو خوب یا زشت قرار دینے کا منصب عقل کو حاصل ہے نہ کہ شرع کو۔ شرع صرف انہی امور کو جائز یا نا جائز قرار دیتی ہے جنہیں عقل جائز یا ناجائز قرار دیتی ہو۔ شرع عقل کا فیصلہ قبول کرنے کی پابند ہے نہ کہ عقل شرع کا۔ اس گرد و پیش میں جو حدیثیں عام طور پر سننے میںآتی تھیں وہ یہ تھیں۔
1۔ علما کی روشنائی شہدا کے خون سے افضل ہے۔
2۔کافر عالم، جاہل مومن پر فضیلت رکھتا ہے۔
3۔ تمہیں جو حدیث عقل کے خلاف معلوم ہوتی ہو، اسے دیوار پر دے مارو۔
اس گفتگو کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ معاشرہ کوئی توانا اور مثالی معاشرہ تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکا تھا اور اب اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہا تھا۔ وہ معاشرہ ’’ طبقہ اشراف‘‘ یعنی تینوں ، سیدوں ، مغلوں اور پٹھانوں کا معاشرہ تھا۔ یہ ’’ اشراف‘‘ اپنے محروم، پسماندہ اور بیشہ در مسلمان بھائیوں کو بڑی حقارت کے ساتھ ’’ اجلاف‘‘ کہتے تھے۔
یہ صدیوں کے مظلوم ’’اجلاف‘‘ اشراف کی رعیت کہلاتے تھے۔ مگر اب سیاسی اور سماجی تحریکوں کے باعث وہ بیدار ہو رہے تھے۔ ان کی اکثریت قوم پرست تھی اور اشراف مسلم لیگ میں تھے یعنی جنگ شروع ہو چکی تھی۔
طبقہ اشراف چونکہ صدیوں سے مراعات یافتہ رہا تھا ، اس لیے زیادہ تعلیم یافتہ، مہذب اور تخلیقی تھا۔ میں نے اس کے وجود کے ڈھینے کی حالت کو اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے۔
تھے عجب دھیان کے در و دیوار
گرتے گرتے بھی اپنے دھیان میں تھے
۱۹۴۳ء میں میری عمر بارہ برس تھی۔ میں اس زمانے میں کبھی شعر کہتا تھا، کبھی جبران خلیل کے نا بالغ طرزِ احساس و خیال میں اپنی ایک خیالی محبوبہ ’’صوفیہ‘‘ کے نام خط لکھا کرتا تھا۔ وہ خط میری بیاض میں محفوظ ہوتے رہتے تھے۔ میں ان خطوں میں اپنی افلاطونی مگر نر گسی محبت کے اظہار کے ساتھ خاص طور پر جو بات بار بار لکھتا تھا، وہ یہ تھی کہ ہمیں انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ میرا خیال یہ تھا کہ میرے ہر وقت کے اشتعال، میری تلخ مزاجی، بے آرامی، بیزاری اور دل برداشتگی کا ایک اہم سبب انگریز سامراج کی غلامی ہے۔ مجھے اپنے ان خطوں میں سے ایک خط کا دھندلا سا مفہوم اب بھی یاد ہے۔ یہاں میں اس خط کی عبارت اور مقسوم کو اس کی اصل عبارت اور اس کے اصل مفہوم کی بھولی بسری ہیئت اور معنویت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
ناظورہ معنی ! تمہاری پیشانی، ابروؤں اور پوٹوں کو ہزاروں ، ہزاروں شبنمی پیار۔ میں نے اس سے پہلا خط تمہیں اسکندریہ کے پتے پر ارسال کیا تھا لیکن سیدی ایلیا ابو ماضی نے مجھے قاہرہ سے لکھاہے کہ تمہارا خاندان قاہرہ منتقل ہو گیا ہے۔ اب میں یہ خط قاہرہ کے پتے پر لکھ رہا ہوں۔
ہم ہندی ایک سجِن میں زندگی گزار رہے ہیں۔ افرنجی ہمیں کبھی آزاد نہیں کریں گے۔ ہم کریں تو کیا کریں ؟ ان کے پاس طیارے ہیں، تو پیں ہیں، ٹینک ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم انہیں ہندوستان سے کس طرح نکال باہر کر سکیں گے !
میں دو مسرتیں ایک ساتھ حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ تمہارا دیدار اور افرنجیوں کا ادبار ۔ تم مشہدِ راس الحسینؑ میں حاضر ہو کر دعا مانگو کہ ہم اور تم زندگی کی سعادت علیا حاصل کر سکیں۔ شاید تمہیں اس بات کا اندازہ ہو گا کہ میں تمہیں کتنا یاد کرتا ہوں۔ عاطفۃ الخوری کو میری دعائیں پہنچانا اور اپنے بالوں کی کوئی لٹ میری طرف سے چوم لیتا۔
صوفیہ، میری صوفیہ ! خدا حافظ
تمہارا جون فوضوی
اسی زمانے کی بات ہے کہ میرے سر پر ڈرامے کا سودا سوار ہوا۔ اس کا سبب ہماری برادری کے لوگوں کا ایک ڈراما کلب تھا۔ اس کا نام بزمِ حق نما تھا۔ یہ کلب انیسویں صدی کے آخر میں قائم ہوا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے ساز و سامان اور اپنی سینریوں کے اعتبار سے کسی طرح بھی بمبئی یا کلکتہ کی کسی تھیٹریکل کمپنی سے کم نہیں تھا۔ اس کے ڈرامے ربیع الاول کے وسط یا موسم گرما میں فصل کٹنے کے بعد اسٹیج ہوا کرتے تھے۔ بزمِ حق نما کے ڈرامے مسلمان تاریخ سے تعلق رکھتے تھے۔ میں ان ڈراموںکے پیش نظر یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اسلامی تاریخ صرف پڑھی نہیں بلکہ سیکڑوں آدمیوں کےدرمیان بیٹھ کر دیکھی بھی ہے ۔ ۶۰ ھ مطابق ۶۸۰ ء کا وہ منظر میرے سامنے کی بات ہے جب عبید اللہ ابن زیاد، مسلم بن عمر و بابلی، شریک بن أعور حارثی اور دوسرے لوگوں کے ساتھ سیاہ عمامہ باندھے ہوئے رات کے وقت کوفے میں داخل ہوا تھا۔ ابنِ زیاد کے لشکر نے توابین کے قائد سلیمان بن صرد خزاعی اور ان کے ساتھیوں کو میرے سامنے خون میں نہلایا تھا۔ میں نے امیر مختار ثقفی اور ابراہیم بن مالک اشتر کو موالی اور شعوبیوں کے لشکر کے ساتھ خون حسینؑ کا انتقام لیتے دیکھا ہے۔ ابو مسلم خراسانی، ابو سلمہ خلال، محمد نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم کا خلیفہ منصور کے حکم سے خون میں نہلایا جانا میرے سامنے کا واقعہ ہے۔ خاندانِ برامکہ، آلِ نوبخت، دیالمہ اور آل بویہ کے افراد میرے دیکھے بھالے ہیں۔ ابوالسرایا، بساسیری، فاطمی امام مستنصر باللہ، ابنِ  کلس بدر الجمالی اور ابنِ علقمی میرے لیے کئی صدی پہلے کے لوگ نہیں، میرے لڑکپن کے لوگ ہیں۔ میں نے انہیں بولتے چلتے اور چلتے پھرتےدیکھا ہے۔
بڑوں کی نقل میں، میں نے بھی ایک ڈراما کلب قائم کیا تھا جو میرے ہی نام سے منسوب تھا۔ میں اس کا ڈائریکٹر تھا اور میرے دوست قمررضی اس کے منیجر۔ ڈرامے میں سب سے اہم کردار میں ادا کرتا تھا۔ گویا میں ڈرامے کا ہیرو ہوتا تھا۔ مجھے میرے محلے سے باہر شاعر کی حیثیت سے بعد میں جانتا گیا اور سب سے مقبول اداکار کی حیثیت سے پہلے۔ میں نے خود بھی ایک ڈراما لکھا تھا۔ اس کا نام تھا ’’خونی خنجر‘‘ یہ ڈرامے موضوعاتی اعتبار سے اموی، عباسی اور فاطمی دور کے عکاس ہوتے تھے۔
میں نے جو ایک زمانے میں بلند آہنگ اشتراکی نظمیں کہیں، ان پر میرے اسٹیج کے دور کا بہت اثر پایا جاتا ہے۔ اور میں تو سمجھتا ہوں کہ میری بہت سی غزلوں کا مکالماتی لہجہ بھی اسی دور کی یاد گار ہے۔
 کانٹ نے شاید اپنی کتاب تنقید عقلِ محض (Critique of Pure Reason)  میں کسی موقع پر مغربی ڈرامے کو شاعری کا سب سے اعلیٰ مظہر قرار دیا ہے۔میں ایک زمانے میں نوٹنکی، رام لیلا اور ڈرامے کا دیوانہ رہا ہوں ۔ مگر یہاں میں انتہائی نیاز مندانہ طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ڈراما اپنے جوہر میں شعری صنف کے اعتبار سے دوسرے درجے کی صنف ہے۔ میں اپنے اس اذ عانی اندازِ گفتار پر معذرت خواہ ہوں۔ میں اپنی نوجوانی کے بعد سے اذ عانیت اور ادعائیت (Dogmatism) کو ذہن کی فحاشی سمجھتا ہوں ۔
میرا استدلال یہ ہے کہ ڈراماخیال کو کردار میں متجسم کرنے کا فن ہے اور خیال کے کردارکی صورت میں متجسم اور مستحیل ہونے کا مطلب ہے، خیال کا اپنی توانائی کھو دینا۔ خیال ڈرامے کا ایک کردار بن کر ایک متعین مکان اور متعین زمان سے متعلق ہو جاتا ہے۔ یعنی ایک کلی اوروسیع الاطلاق خیالیہ، جزئی مکان، جزئی زبان اور جزئی مظہریت میں محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔
 میں ۱۹۴۳ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک صبح و شام ڈرامے میں غرق رہا اور اس کے ساتھ شاعری کا قدرے غیر مسلسل سلسلہ جاری رہا۔ ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگ اور کانگریس میں انتخابی مقابلہ ہوا اور پورا معاشرہ دو حصوں میں بٹ گیا۔ اس وقت کے حالات کے پیش نظر بزم حق نمانے اپنے ڈراموں کا پروگرام ملتوی کر دیا۔ اس لیے کہ ہندوستان کی تاریخ کے اسٹیج پر ان ڈراموں سے کہیں زیادہ، کہیں زیادہ سنسنی خیز ڈراما پیش ہونے والا تھا۔ اس کے زیرِ اثر میری ڈرامائی سرگرمیاں بھی ختم ہو گئیں۔ اس وقت ساری فضا پر سیاست کا بحران طاری تھا۔ آخر ملک تقسیم ہو گیا۔ چودہویں اور پندرہویں اگست کے بعد ایک یکسر نیا برصغیر وجود میںآیا۔ آزادی کا جشن منایا گیا مگر مجھے لاکھوں چراغوں کی روشنی میں اندھیرا دکھائی دے رہا تھا۔ یہ وہ آزادی نہیں تھی جس کے خواب میں نے دیکھے تھے۔ میں نے خون میں لتھڑی ہوئی اس آزادی کا اپنے ذہن کی بدترین حالت میں بھی تصور نہیں کیا تھا۔ ہم سب یہ سمجھتے تھے کہ آزادی کے بعد بر صغیر جنت بن جائے گا لیکن حقیقت حال یہ تھی کہ ہم آزادی کے جہنم میں جلنے کا ایک اشتعال انگیز دورشروع کر رہے تھے۔
میں اپنے مزاج میں شروع ہی سے ایک نفی پسند ( Nihilist) اور فوضوی ( Anarchist ) تھا۔ میں کسی بھی ضابطے اور قاعدے کو تسلیم نہیں کرتا تھا۔ اس کی ایک نفسیاتی وجہ یہ بھی تھی کہ تمام ضابطے اور قاعدے انگریز سرکار اور اس کے دلال جاگیرداروں ، تعلقہ داروں، رائے صاحبوں، خان بہادروں اور سبک سر، سروں کو راس آتے تھے۔
میں نے تقسیم کے بعد ہی صحیح معنی میں شاعری شروع کی۔ میں شاعری میں بابا اور اپنے فارسی اور عربی کے استاد مولانا سید محمد عبادت صاحب کلیم امروہوی کا شاگرد ہوں ۔ یہ زمانہ میرے سیاسی شعور کا عہدِ آغاز تھا۔ میں اس زمانے میں صبح سے شام تک بلاناغہ ، بھائی چھمن ( نازش امروہوی) کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن امروہہ کے صدر رہے تھے اور مسلم لیگ کے بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ایک بہت روشن خیال اور انسان دوست آدمی تھے۔ ۱۹۴۸ء کے آغاز کی بات ہے کہ انہوں نے ایک کتاب پڑھی جو بھائی صادقین احمد (نامور مصور ) کے نصاب میں داخل تھی۔ اس کتاب کا نام تھا ’’ نئے ادبی رجحانات‘‘ یہ کتاب پروفیسر احتشام حسین کے استاد، ڈاکٹر اعجاز حسین نے تالیف کی تھی۔ اس کتاب نے بھائی نازش کو چند ہی روز میں کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ اب وہ کمیونزم کے راستے پر چلنے کی حالت میں آگئے تھے۔ انہوں نے یہ کتاب مجھے پڑھنے کو دی اور صحیح بات یہ ہے کہ میں نے اس کتاب کے ذریعے ترقی پسند تحریک کی ادبی اور سیاسی معنویت سمجھی۔ بھائی چھمن نے اس زمانے میں مجھے منطق کی پہلی کتاب پڑھائی اور میں جو شروع ہی سے فلسفے کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا تھا، آہستہ آہستہ فلسفے کے راستے پر چل پڑا۔ اس وقت میرے تینوں بڑے بھائی پاکستان جا چکےتھے۔
سیاسیات میں بھائی نازش ہی میرے استاد تھے۔ انہوں نے ہی مجھے کمیونزم کا راستہ دکھایا۔ میں ایک متشکک اور لاادری آدمی ہوں۔ مجھے اب اپنی کسی بات پر کوئی اصرار نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کی رائے صحیح ہو اور میری غلط مگر جہاں تک کمیونزم کی سماجی سائنس کا تعلق ہے، تو میں اس پر اپنی پوری استدلالی ، شاعرانہ اور اخلاقی حالتوں کے ساتھ یقین رکھتا ہوں ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ شرفائے تاریخ میں سے کوئی ہستی سرمایہ داری نظام کی تائید کرے گی۔ اگر حضرت عیسیٰ موجود ہوتے تو کیا وہ سرمایہ دارانہ نظام برداشت کر سکتے تھے ؟ کیا آں حضرتؐ اور ان کے برگزیدہ صحابہؓ کسی سرمایہ دار معاشرے میں ایک پل بھی سانس لینا پسند کر سکتے تھے؟ اشتراکی معاشرہ شرفائے تاریخ کا خواب رہا ہے۔ میں اُن دنوں اپنے ہر قول کو قولِ فیصل سمجھتا تھا۔ میرے اندر شدید ترین ادعائیت ( Dogmatism) اور اذعانیت پائی جاتی تھی۔ اس دوران میرے ذہن میں ایک عجیب خیال آیا جسے میں نے ایک غیر مستند اور یکسر ذاتی خیال سمجھا۔ وہ خیال یہ تھا کہ سکے کا رواج ختم ہو جاتا چاہیے ۔ اس خیال کے زیر اثر میں نے ۱۹۴۹ء یا ۱۹۵۰ء میں ایک غزل کہی جس کے چند شعر یہ ہیں۔
کر نہ افسانہء عدم تازہ
زلفِ ہستی ہے خم بہ خم تازہ
کفر اہلِ حرم کی سازش ہے
ہے خدا بھی صنم صنم تازہ
نغمہ گر اک نوائے بے قانوں
ہو نہ آئینِ زیر و بم تازہ
اس غزل کا جو شعر مجھے سنانا تھا ، وہ یہ ہے۔
ہو جہاں زر نہ قیمتِ یوسف
کر وہ بازارِ بے درم تازہ
پرو دھن نے بھی ہیں کہا تھا کہ ہو جہاں زرنہ قیمتِ یوسف، کر وہ بازار بے درم تازہ ۔ اس نے قدرِ استعمالی کو باقی رکھنے اور قدرِ مبادلہ کو درمیان سے ہٹا دینے کا نظریہ پیش کیا تھا۔ میں آہستہ آہستہ فلسفے کے مطالعے میں غرق ہوتا جا رہا تھا۔ میری بد نصیبی کہ میں سب سے پہلے ایک برطانوی فلسفی سے دوچار ہوا۔ وہ تھا تصوریت پسند بار کلے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ ہم شے کا ادر اک اس لیے نہیں کرتے کہ وہ پائی جاتی ہے بلکہ وہ پائی ہی اس لیے جاتی ہے کہ ہم اس کا ادراک کرتے ہیں یعنی اگر ہم کسی کتاب کو پڑھنے کے بعد الماری میں بند کر دیں اور وہ ہمارا معروضِ ادر اک نہ رہے تو وہ یک سر معدوم ہو جائے گی اور اس کا کائنات میں کہیں کوئی وجود باقی نہیں رہے گا۔ یہ ایک بہت دلچسپ صورت حال تھی اور میرا خیال پسند ذہن اس سے بے حد لطف اندوز ہوتا تھا لیکن اس لطف اندوزی کے باوجود میرا دماغ مختل ہو جاتا تھا۔ میں الماری کھولتا اور اس کتاب کو انتہائی ناقابلِ جواز طور پر موجود پاتا اور پھر الماری بند کر دیتا یعنی اس کتاب کو دوبارہ عدم کے حوالے کر دیتا۔ یہ تصوریت پسندانہ مشقت میرے دماغ کے لیے یک سر نا قابلِ برداشت تھی مگر بار کلے نے اپنی انتہائی نظریاتی فراخ دلی کا ثبوت دے کر اسے میرے لیے کسی حد تک قابلِ برداشت بنا دیا تھا۔ اس کا افادۂ عالیہ یہ تھا کہ جس وقت تم نے کتاب رکھ کر الماری بند کر دی تھی اور وہ کتاب کسی انسان کے ادراک کا معروض نہ ہونے کی وجہ سے معدوم ہو گئی تھی اس وقت وہ ذہن باری میں موجود تھی۔
میں طلسم ہوش ربا، کوچک باختر، بالا باختر اور بوستانِ خیال کی تمام جلدیں پڑھ لینے کے باوجود بارکلے کی مقدس تصوریت پسندانہ شعبدہ گری اور کتاب کے بہ یک آن موجود اور بہ یک آن معدوم ہو جانے کے وقوعے سے محظوظ ہونے کا ذرا بھی اہل نہ تھا۔ آخر مجھے ڈیوڈ ہیوم کی ’’ مبادیِ علمِ انسانی‘‘ پڑھنے کا موقع ملا۔
ہیوم کو پڑھنے کا مشورہ مجھے دلی میں مشہور کمیونٹ مفکر اور ترقی پسند ادیب ڈاکٹر عبدالعلیم نے دیا تھا۔ میں دنیا کا تو پہلے بھی نہ نہیں تھا۔ یہ کتاب پڑھ کر دین سے بھی گیا۔ جس حکمت عملی کے ساتھ بار کلے نے مادے کا خانہ خراب کیا تھا ، اس سے کہیں زیادہ اعلیٰ منصوبہ بندی کے ساتھ ہیوم نے ذہن، نفس، روح اور ان کی کمیں گاہیں برباد کیں۔
اس نے ایک اور ہنر بھی دکھایا اور وہ تھا ، نظام علیت کو بے بنیاد ثابت کرنے کا ہنر۔ یہ ہنرہیوم سے بہت پہلے ہمارے علم الکلامی خانوادے کے قبلہ و کعبہ امام غزالی بھی دکھا چکے تھے۔ ہیوم نے عقل کو اس کی مسندِ اقتدار سے معزول نہیں کیا تھا مگر میرے بزرگ محترم امام غزالی نے اس مقدس اور تبرک عمل کی تکمیل کا مطبوعِ عام اور مقبولِ عوام فرض بھی انجام دیا جس کا حضرت ابو موسیٰ اشعری کے پوتے امام ابو الحسن اشعری کی عمر کی چوتھی رہائی سے دنیائے اسلام کو بڑی شدت سے انتظار تھا۔
مادے ، روح اور ذہن کی اس تباہی کے بعد میں ایک جاں کاہ ارتیابیت میں مبتلا ہو گیا۔ میری اذعانیت اور ادعائیت بدترین انجام سے دوچار ہوئی تھی۔ اب ایک بیزار کن تشکک تھا، محلے کی ایک لڑکی بلکہ محلے اور شہر کی کتنی ہی لڑکیوں کے شوق اور اس شوق کے اظہار نہ کرنے کی اذیت تھی اور گھروں ، گلیوں اور محلوں کے خوش ترتیبی کے ساتھ ویران ہونے کی مسلسل وقوع پذیری تھی اور میں تھا۔
ساری گلی سنسان پڑی تھی بادِ فنا کے پہرے میں
گھر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا
اس اداسی میں تحصیلِ علم اور تہذیبی سرگرمیاں تھیں جو وقت گزارنے کی مشقت کا احساس کچھ کم کر دیتی تھیں۔ میں نے اب تک دو قسم کی انفعالیتوں میں زندگی گزاری تھی۔ ایک مابعد الطبیعاتی انفعالیت اور دوسری تاریخیاتی انفعالیت۔ مابعد الطبیعاتی انفعالیت کی آرام وہ کیفیت سے اب میرا ذہن محروم ہوتا جارہا تھا۔ مغربی اور ’’یونا عربی‘‘ فلسفے کے منطقی نتائج نے مجھے ارسطو کے محرک اول  (Prime Mover) اور عربی فلسفے کی اصطلاح کے مطابق واجب الوجود کی عقلی اور جذباتی داد رسی سے مستفید ہونے کا کسی درجے میں بھی اہل نہیں رکھا تھا۔ ذہنی صورت حال بہت ناساز گار ہو گئی تھی اور مجھے اپنے شہر کے جنگل اور باغ اب اچھے نہیں لگتے تھے۔ موسم گرما کی تاریک راتوں کا گھنا آسمان ، اب میرے لیے خیال آفریں نہیں رہا تھا پر و ناگورس سے کسی نے سوال کیا تھا کہ خدا کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اس نے جواب دیا تھا کہ مسئلہ بہت پیچیدہ ہے اور عمر بہت کم۔
اس طرف زلفِ ناز پرخم ہے
اور ادھر اپنی زندگی کم ہے
میرا سب سے بڑا مسئلہ یقین سے محروم ہو جانے کی اذیت سے تعلق رکھتا تھا۔ ارتیابیت میرے نزدیک ہرگز کوئی خوش آیند کیفیت نہیں تھی لیکن والٹیر کے قول کے مطابق یقین انتہائی مضحکہ خیز تھا۔ پھر بھی مجھے اپنی بے آرامی کی حالت میں ’’مضحکہ خیز یقین‘‘ کی اکسیر استعمال کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا مگر صورتِ واقعہ یہ تھی کہ یہ اکسیر فلسفے کے پنساریوں کے ہاں ملتی تھی اور میں ایک بلدیاتی قسم کی شئے کے لیے دکان دکان جاکر اپنی حیثیت ِعرفی زائل کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ مسئلہ کلیاتی اور کائناتی تھا اور بیکن کے قول کے مطابق اتنا پیچیدہ تھا کہ منطقی قیاس کے قابو میں نہیں آسکتا تھا۔ بات کائنات کی مابعد الطبیعی توجیہ کی تھی اور کانٹ نے صحیح کہا تھا کہ مابعد الطبیعی امور کو منطقی استدلال کے ذریعے ثابت نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہ مذہب اور خدا عقل کی دست رس سے باہر ہیں۔ میں اپنی شدید ارتیابیت کے باوجود یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کرئہ ارض بلکہ ہماری اس کہکشاں کے کسی بھی سیارے پر کسی ایسے ذہن کا وجود فرض کرنا ممکن نہیں جو لفظ خدا کے مفہوم کی تشریح کر سکے۔ مسئلہ سید جون ایلیا حسنی الحسینی کی رضا مندی یا نارضامندی کا نہیں ہے۔ مسئلہ تعقل کے خانوادے کی جدئہ عالیہ منطق اور جدِ عالی تفلسف کا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم یہ مسئلہ اس دانش کے سامنے لے جائیں جو اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ دینے کا سب سے زیادہ استحقاق رکھتی ہے۔ یہاں میں سب سے پہلے الٰہیات کے ماہرِ خصوصی ’’ مسمیٰ پلوٹی نس‘‘ کا نام لوں گا جس نے کسی بھی مشقت کے بغیر عمر بھرفلسفے کے خرچ پر شاعری کی۔ اس بزرگ کا قول ہے کہ خدا کے بارے میں یہ کہنا بھی روا نہیں کہ وہ موجود ہے۔ وہ تو وجود سے بھی برتر اور ماورا ہے، وہ برترین تنزیہہ ہے۔ حضرت علیؑ نے بھی نفی صفات کی تلقین کی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے’’ کمال الاخلاص لہ نفی الصفات عنہ‘‘ یعنی تنزیہہ کا کمال یہ ہے کہ اس سے صفات کی نفی کی جائے، اس لیے کہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف سے جدا ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ اپنی صفت سے جداگانہ کوئی وجود رکھتا ہے لہٰذا جس نے ذات کے سوا صفات مانیں، اس نے ذات کا ایک قرین فرض کر لیا اور اس طرح ثنویت پیدا کی۔ فلسفیانہ تصوف کےنمایندوں نے بھی یہی موقف اختیار کیا اور کہا کہ خدا ایس اور لیس سے منزہ ہے۔ یہاں میں حلاج کےخطبات کی طرف بھی اشارہ کروں گا۔ موجود کا مطلب ہے ، ارسطو کے دس مقولات، کانٹ کے بارہ مقولات اور ہیگل کے (شاید) متر مقولات میں محدود ہو جانا۔ دنیا کے کسی فلسفے نے میرے علم کے مطابق آج تک وجود اور موجود کی تعریف کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی ۔ ہم لغوی اور نصابی طور پر وجود کی ایک ہی تعریف کر سکتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ وجود کا ایک ہی مترادف بیان کر سکتے ہیں اور وہ ہے ماہیت کا خارج میں ہونا۔ میں اپنے فلسفیانہ مطالعے ، یقینا بیحد محدود مطالعے کے پیش نظرکہہ سکتا ہوں کہ وجود کی اس کے سوا آج تک کوئی توضیح نہیں کی جاسکی۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا موجود ہے تو ہم اسے ایک ماہیت قرار دیتے ہیں۔ ہم گفتگو آگے بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر موجود شے ہے اور ہر شے موجود ہے۔ شیئیت اور وجود ہم معنی ہیں۔ اب ہم کہتے ہیں کہ خدا موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا شے ہے۔ اگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے تو پھر اس کا، ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ خدا لاشے ہے۔ لاشے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں، ایک لا موجود اور ایک یہ کہ وہ موجود جو شے نہ ہو، کچھ اور ہو۔ کچھ اور کیا؟ کہیں وہ سوال ہے جس کا جواب مابعد الطبیعی فکرکے تمام نمایندوں کو دینا ہے۔
فلسفہ وجود اور وجودِ وجود سے بحث کرتا ہے اور سائنس مظاہرِ وجود سے بحث کرتی ہے۔ میں نے جس کائنات میں آنکھ کھولی تھی، وہ موجودہ کائنات سے یک سر مختلف کائنات تھی، ایک ایسی کائنات جو بہ یک وقت ارسطو کی کائنات بھی تھی اور اور دیمقراطیس کی کائنات بھی۔ ہمارے امروہے کے علمی ماحول میں دو مسئلے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ خدا موجود ہے یا نہیں ؟ اور دوسرا مسئلہ سیاست سے تعلق رکھتا تھا۔ یہاں دو سوال پیدا ہوتے تھے۔ ایک یہ کہ آیا مغربی جمہوریت سب سے زیادہ انسان نو از نظام ہے یا کمیونزم ؟ یہ سوال آزادی سے پہلے بھی زیر بحث رہتا تھا اور آزادی کے بعد بھی دو تین سال تک ہمارے شہر کا موضوع رہا۔ یہاں مجھے امروہے کے سب سے مشہور کمیونسٹ اور سب سے گھمبیر ملحد اور اپنے بھائی سید محمد تقی کے انقلابی ساتھی کامریڈ منصور حسین یاد آرہے ہیں اور ان کی یاد کے ساتھ مجھے اپنے بچپن یا لڑکپن کی ایک محفلِ نعت یاد آرہی ہے، وہ محفل طرحی تھی، اس کی زمین تھی مفاعلن فعلاتن ،’’گلاب شیشے میں، شباب شیشے میں‘‘۔ اس محفل میں بھائی مصور ، انقلابی نوجوانوں کی بیماری تپ دق میں خون تھوکنے والے بھائی مصور نے جو نعت پڑھی تھی، اس کا ایک شعر مجھے لڑکپن سے یاد چلا آرہا ہے۔
جو خاک خون ہوئی تھی بہ روزِ عاشورا
وہ رکھ گئے تھے رسالت مآبؐ شیشے میں
میں نے اپنے ناقص مطالعے اور علمی مجلسوں کے افادے کے نتیجے میں جو بات سیکھی ، وہ یہ ہے کہ دلیل ولیل شاید کچھ نہیں، وہ تو ایک تاریخی، سماجی اور نفسیاتی تکييف (conditioning) ہوتی ہے جو کسی رائے اور مسلک کو اختیار کرنے کارجحان پیدا کرتی ہے۔ دلیلیں تو سب وہی ہیں مگر کوئی یہودی ہے، کوئی مسیحی ہے، کوئی مسلمان ہے، کوئی ہندو ہے ۔ کوئی کہتا ہے کہ کائنات کی ایک علتِ شاعرہ پائی جاتی ہے اور کوئی اس سے انکار کرتا ہے۔ میرا گمان یہ ہے کہ کسی عالی نظامِ استدلال اور عالی منطق کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا۔ اگر ہم اعتراف کی شریفانہ صلاحیت رکھتے ہوں تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہم جواب حاصل کرنا تو بڑی بات ہے، سوال کرنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔ ہم کائنات کے بارے میں جو بنیادی اور جوہری سوالات اٹھا سکتے ہیں، وہ غالباً یہ ہیں کہ کائنات کی ہدایت، ماہیت، حقیقت اور غایت ِقصویٰ کیا ہے؟ کیا یہ ہماری انتہائی بد نصیبی نہیں ہے کہ ہمارے اس نوع کے تمام سوالات صرف ناجواب پذیر ہی نہیں، نا قابلِ توضیح اور نا قابلِ تشریح بھی ہیں۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں، آپ فلسفی ہوں یا طبیعاتی سائنس داں، کیا آپ ان سوالات کی تشریح کر سکتے ہیں۔ یہاں منطقی اثباتیت ( LOGICAL POSITIVISM ) کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ منطقی اثباتیت ، مادراء الطبیعی نوعیت کے مفاہیم کو ’’ مفاہیم‘‘ کی حیثیت دینے سے اپنے آپ کو معذور محسوس کرتی ہے۔ میرا گمان ہے کہ یہ ان کا کوئی فکری مکابرہ نہیں ہے۔ وہ اپنا یہ نقطہ نظر پیش کر کے اپنے تئیں مغرب اور مشرق کے فلسفیانہ حلقوں کو ایک اشتعال انگیز بشارت دینے کی لذت سے حظ اندوز ہونے کا کوئی ادنیٰ میلان بھی نہیں رکھتے۔ دراصل وہ صورتِ مسئلہ کی سنگینی کا احساس دلانا چاہتےہیں اور اس باب میں وہ حق بہ جانب ہیں۔
صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ ماوراء الطبیعی اور نیم ماوراء الطبیعی سوالات سے تعلق رکھنے والے جملے صرف و نحو کے اعتبار سے تو ضرور درست ہوتے ہیں مگر وہ مفہوم سے کوئی تماس اور تعلق نہیں رکھتے۔ مثلاً حسب ذیل جملے۔
ا۔ دہر میں قبل اور بعد نہیں پائے جاتے۔
۲۔ وجود ایک بسیط حقیقت ہے۔
۳۔اعیانِ ثابتہ ، اعیانِ ممکنات کے وہ حقائق ہیں جو علمِ حق میں ثبوت رکھتے ہیں۔
ان تین جملوں میں شروع کے دو جملے ما بعد الطبیعات سے تعلق رکھتے ہیں اور تیسرا جملہ فلسفیانہ تصوف کی نمایندگی کرتا ہے۔ ہمار ا سب سے بڑا فکری المیہ یہ ہے کہ ہم جواب حاصل کرنا تو بڑی بات ہے ، سوال تک کرنےکی اہمیت نہیں رکھتے۔ میں فلسفے کا مطالعہ کرنے کے نتیجے میں اپنی تمام تر یقینیات سے محروم ہو گیا۔ اس کے بعدمیری یہ کیفیت ہوئی کہ اگر ایک زاویہ قائمہ دو حادہ زاویوں کے برابر ہوتا ہے تو ہوا کرے، میری بلا سے۔ اس دوران میں اس نتیجے تک پہنچا کہ کائنات کی کوئی ایک توجیہہ کرنا شاید ناگزیر نہیں ہے یا شاید میری یہ خواہش تھی کہ ناگزیر نہیں ہونا چاہیے ۔ میں سوچتا رہتا ہوں اور محض سوچنے کے لیے نہیں بلکہ کسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے ۔ میں اب تک جس نتیجے تک پہنچا ہوں، وہ یہ ہے کہ کائنات کی تمام شیون و اشیا دراصل ” واقعات‘‘ ہیں جو مکان و زمان کے نہائی انقسامات میں متصلًا پیش آرہے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کائنات ایک واقعہ ہے جو عظیم الشان پیمانے پر متصلًاً پیش آرہا ہے۔ وہ شے جو زمانی اور مکانی طور پر واقع نہ ہو یا پیش نہ آئے، غیر موجود ہوتی ہے۔ خدا زمانی یا مکانی طور پر واقع نہیں ہوتا یا پیش نہیں آتا، اس لیے وہ غیر موجود ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ کسی مسلمان مفکر نے یہ بات کہی ہے کہ خدا کو موجود کہنا اس کی تنزیہہ کے یک سر بر خلاف ہے۔ موجود مفعول کا صیغہ ہے اور خدا کے لیے مفعول کا صیغہ استعمال کرنا بدترین مشرکانہ جسارت ہے۔ تقریباً تین ہزار یا ساڑھے تین ہزار برس سے مہذب ملکوں اور معاشروں میں یہ رجحان عام رہاہے کہ کائنات کی اور کائنات کے مظاہر کی کوئی ایک توجیہ کی جائے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کائنات اور کائنات کے مظاہر کی کوئی ایک توجیہ کرنا کیوں ضروری ہے؟ ایک اور مسئلہ بھی مجھے بہت پریشان کرتا ہے کہ کائنات کی کوئی غایت ہے یا نہیں؟ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ارسطو اور ہٹلر کے پیدا ہونے کی آخر کیا غایت تھی؟ اگر ہمالیا شمال کے بجائے جنوب میں واقع ہوتا تو اس میں آخر کیا استحالہ تھا؟ اگر انسانی ناف کے اوپر بالوں کی لکیر نہ پائی جاتی تو آخر کس نظامیاتِ بدنی کو نقصان پہنچ جاتا ؟ میں نے اپنی بعض محبوبات کی پنڈلیوں پر بالوں کی جھلک دیکھی ہے اور بعض کی پنڈلیاں بالکل صاف پائی ہیں۔ بعض محبوبات کا پیالہء ناف گرا پایا ہے اور بعض کا اُتھلا۔ میں شاعرِ عاشق اور معشوق کے طور پر ان مظاہر کی توجیہ کرنے کا قطعاً ذمے دار نہیں ہوں مگر ایک سوچنے والے غیر جذباتی فرد کے طور پر میں یہ سوال کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے؟ اس بے نظامی کو کس نظام کا نتیجہ قرار دیا جائے؟
تضاد اشیا کی حقیقت اور ان کا عین ہے۔ مگر کائنات باطن اور ظاہر میں منقسم نہیں ہے۔ کائنات کا نہ کوئی اندروں ہے اور نہ کوئی بیروں ۔ کائنات کی خارجی ہویت ہی کائنات ہے۔ کائنات ایک دائم اورسرمدی برہنگی کا نام ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو فلسفے اور شاعری میں مشترک ہیں لیکن یہاں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ فلسفے کے تمام مسائل شاعری کے مسائل ہیں لیکن شاعری کے تمام مسائل فلسفے کےمسائل نہیں ہیں۔ فلسفہ صرف تعقلاتی مسائل اٹھاتا ہے لیکن شاعری تعقلاتی ، تخیلاتی، احساساتی اور جذباتی تمام مسائل سے سروکار رکھتی ہے۔
فلسفے کے مطابق کائنات کے شعبہ ءبندوبستِ توقعات میں اس امر کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا کہ آنے والا دن گزرنے والے دن سے بہتر ہو گا۔ وہ صرف شاعری ہے جو آنے والے کل کی خوش گوار امیدوں سے فرد اور سماج کو بہرہ یاب کرتی ہے۔ یہاں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شاعری تخلیقی اور فنکارانہ فریب خوردگی اورفریب دہی سے عبارت ہے۔
شاعری میرے ماحول میں جزوے از پیغمبری نہیں بلکہ مکمل پیغمبری سمجھی جاتی تھی۔ وہ بابا کی زبان میں ایک الوہی آہنگ، قدری ترتیل اور قدیسی ترنیم کی حیثیت رکھتی تھی۔
شعر کو عربی لفظ سمجھا جاتا ہے اور اسے شعور کا مادہ قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ شعر، عبرانی لفظ ’’شیر‘‘ کا معرب ہے۔ اس کے معنی ہیں ، راگ ، خوش آوازی اور خوش آہنگی۔ میرے خیال میں وزن شعر کی بنیادی شرط ہے۔ میں ماضی کے کسی ایسے شخص سے واقف نہیں ہوں جس نے نثر اور اعلیٰ سے اعلیٰ خوش آہنگ نثر لکھی ہو اور اسے اصطلاحاً شاعر قرار دیا گیا ہو۔
قدیم اور جدید صاحبانِ رائے نے وزن کو شعر کی شرط نہیں قرار دیا۔ قریش کے شعری مبصروں کا موقف ، قدیم صاحبان ِرائے کے موقف کی بہترین مثال ہے۔ قریش نے قرآن کو شاعری اور آں حضرتؐ کو شاعر قرار دیا تھا۔ قریش کے اس حسین ذوق کا ذکر میں بچپن سے سنتا چلا آرہا ہوں ۔ لیکن جب سے میں نے ایک شاعر کے طور پر ہوش سنبھالا ہے ، اس وقت سے لے کر اب تک قریش کی یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ جب کہ مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ قریش نے قرآن کو شاعری کہہ کر کیا کہنا چاہا تھا۔ دراصل انہوں نے یہ بات کہہ کر قرآن کے حسنِ اسلوب کی تعریف کی تھی ورنہ وہ قدیم زمانے سے جس کلام کو شاعری سے تعبیر کرتے چلے آئے تھے وہ موزوں تھا۔
ہم جب مکالماتِ افلاطون یا نطشے کی تحریروں کی داد دیتے ہیں تو انہیں شاعری کہہ اٹھتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ایک چیز اندازِ تحسین ہے اور ایک چیز اصطلاح ۔ ہمیں ان دو چیزوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے ۔ شاعری کی قدیم تاریخ سے لے کر آج تک ناموزوں کلام کو اصطلاحی طور پر کبھی شاعری نہیں کہا گیا۔ کم سے کم میرے علم میں ہے۔
میں وزن یا آہنگ کے بغیر شاعری کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔ یہ محض ایک نفسیاتی مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ اخلاقی مسئلہ بھی ہے۔ یہ مسئلہ نفسیاتی اس لیے ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اور اتفاقِ رائے کے ساتھ ایک خاص اسلوبِ کلام کو شاعری سمجھتے اور کہتے چلے آئے ہیں۔ سو جب ہم یہ سنتے ہیں کہ اس خاص اسلوبِ کلام کے علاوہ دوسرے اسلوبِ کلام یعنی نثر کا اعلیٰ تخلیقی نمونہ بھی شاعری ہی کی ایک صنف ہوتا ہے تو ہم ایسا غوجی کا پڑھا ہوا سارا سبق بھول جاتے ہیں۔ ہمارے منطقی شعور کو ایک جھٹکا لگتا ہے اور منطقی تعریفات کی تمام تر منہاجیت Methodology بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔
یہ مسئلہ اخلاقی اس لیے ہے کہ ہمارے اور آپ کے درمیان یہ معاہدہ ہے کہ ہم افلاطون ، ڈماستھینیز ، قس ابن ساعدہ، بدیع الزماں ہمدانی ، گلستاں کے سعدی، آسکر وائلڈ اور میر امنؔ کو بہترین شاعر کہہ کر یاد نہیں کریں گے بلکہ انہیں اعلیٰ ادیب کہیں گے۔ اگر میں کل سے یہ کہنے لگوں کہ ٹالسٹائی، واستو د سکی، رتن ناتھ سرشار ، پریم چند اور منٹو بہترین شاعر تھے تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر ہمارے اور آپ کے درمیان کس طرح گفتگو ہو سکے گی۔ اور اگر آپ کوئی خاتون ہیں تو میرے اور آپ کے درمیان جو سلسلہ جاری ہے، وہ آئندہ کس طرح جاری رہ سکے گا۔ یہ مسئلہ اس لیے بھی اخلاقی ہے کہ ہم کوئی اچھی یا بری غزل یا نظم سنا کر آپ سے کبھی اس بات کی خواہش نہیں رکھتے کہ آپ ہمیں بہترین ادیب یا افسانہ نگار کہیں۔ پھر آپ یہ کیوں چاہتے ہیں۔ آپ جو عمومی طور پر بری،بھونڈی اور غلط نثر لکھ رہے ہیں کہ ہم آپ کو شاعر کہیں۔
میرا خیال ہے کہ مجھے اس مناظرے کو چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہیے۔ میں انتہائی مصالحت پسندانہ جذبے کے ساتھ یہ پوچھوں گا کہ ہم دن بھر اپنے گھروں ، راستوں ، گاڑیوں ، دفتروں ، کار خانوں اور مختلف اداروں میں ایک دوسرے سے کس اسلوب میں گفتگو کرتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ نثر میں۔ اب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم میں سے اگر کچھ لوگ ، کچھ اول جلول لوگ ایک غیر معمولی کیفیت میں اپنے آپ سے اور دوسروں سے ایک مخصوص فنی آہنگ میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو آپ اس گفتگو کو ایک خاص اصطلاحی نام دینے میں کیا خرابی محسوس کرتے ہیں؟ میں بہت ہی سرسری اندازمیں اس طرزِ گفتگو کو شاعری کہتا ہوں ۔ جب ایک تربیت یافتہ ذہن اور ذوق رکھنے والا آدمی اپنی روز مرہ کی مصروفیات اور فوری ضرورتوں کے احساس سے بلند ہو کر اپنے ساتھ تنہا ہو جاتا ہے اور اپنے سکوت کو اپنے ہی لفظوں میں گنگنانے لگتا ہے تو وہ شاعری کر رہا ہوتا ہے۔ فنون یعنی شاعری ، مصوری، افسانہ نگاری اور مجسمہ سازی اس بات کا مظہر ہیں کہ فطرت نے اپنے آپ سے بلند ہونا چاہا ہے۔ میں اس بات کو یوں بھی کہہ سکتا ہوں کہ فن صاحبِ فن کے ترفعِ ذات کی تربیت یافتہ اور برجستہ خواہش کے اظہار کا دوسرا نام ہے۔ میں محبت اور شاعری کو بھی مذکورہ صورت حال کے ساتھ توسیع ِذات ہی سے تعبیر کروں گا۔ میں نے ’’ ذات‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور میں اچانک چوکنا ہو گیا ہوں۔ بات یہ ہے کہ’’ ذات‘‘ ایک بہت ہی عامیانہ ، وجودی ، غیر ذمہ دارانہ اور امریکی ’’فکریات‘‘ کی ریستورانی اصطلاح بن کر رہ گئی ہے، اس لیے میں اسے احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ ذات معاشی اور معاشری رشتوں کے درمیان ، فرد کے شعوری، غیر شعوری، فعلی اور انفعالی تشخص کی متعین اور متحرک حالت کانام ہے۔
شاعر کی ذات میں فطرت کے ارتفاع کا جمالیاتی بروز ہوتا ہے۔ یہاں شاعر سے ایک ایسا متنفس مراد ہے جس کے نفس میں احساس ، تخیل ، تعقل اور جذبہ ہم آہنگ ہو کر ایک تخلیقی وحدت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اور یہ تخلیقی وحدت ، با معنی صوتی و حدتوں (لفظوں) کی غنائی تالیفات میں صورت پذیر ہو کر شاعری کہلاتی ہے۔ یہاں ایک خاص بات قابلِ ذکر ہے اور وہ یہ ہے کہ ریاضیات کو عام طور پر تمام فنونِ لطیفہ اور خاص طور پر شاعری کی ناگوار ترین ضد سمجھا جاتا ہے۔ میں نے بھی طالب علمی کے ابتدائی زمانے میںیہی سمجھا تھا، سو مار کھا گیا۔ فنونِ لطیفہ کی انتہائی لطیف ، مجرد اور نمایندہ ترین قسم ، موسیقی ، ریاضیات ہی کی ایک قسم ہے۔ میرے خیال میں افسانہ نگاری اور ڈرامے کو چھوڑ کر فنونِ لطیفہ کی تمام اقسام ، ریاضیات ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ چنانچہ شاعری کلامِ موزوں کی حیثیت سے یعنی صوری طور پر ریاضیات کا ایک شعبہ ہے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شاعری ذہن کی موسیقی ہے اور لفظ اس کے آلات ہیں۔
اب رہا خیال یا شعر کا موضوع لہ ، تو اس سلسلے میں منطق کا ذکر ناگزیر ہے، منطق شعور کی ، اوسط اور ادنیٰ کسی بھی حالت میں اور شعور منطق کے اعلیٰ ، اوسط اور ادنیٰ غرض کسی بھی درجے میں۔ یہ گفتگو اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے میں بلکہ تمام معاشروں میں شروع ہی سے شاعری کو الہام یا کہانت سمجھا گیا ہے۔ شاعری کا تعلق اگر پیڑو اور پنڈے سے نہیں ہے بلکہ دماغ سےہے ، ذہن سے ہے تو ذہن کی سب سے اعلیٰ حالت یعنی منطقی حالت کا ذکر ناگزیر ہے۔
 منطق جب انتاج اور استنتاج کے متدرج عمل میں غیر متدرج ہو جائے تو مابعد الطبعیات وجود میں آتی ہے۔ منطق جب انتاج اور استنتاج کے استخراجی اور استقرائی عمل میں متدرج رہے تو سائنس وجود میں آتی ہے۔ اور منطق جب احساس کی مکانیت اور زمانیت میں تخیل اور جذبے کے جمالیاتی آہنگ کے ساتھ صورت پذیر ہو تو شاعری وجود میں آتی ہے۔ یعنی شاعری کے چار عناصر ہیں تعقل، احساس ، تخیل اور جذبہ ۔ جب کہ سائنس بلا واسطہ اور بالواسطہ طور پر صرف احساس سے تعلق رکھتی ہے ،مذہب تخیل سے تعلق رکھتا ہے، فلسفہ صرف تعقل سے تعلق رکھتا ہے اور شاعری احساس ، تخیل ، تعقل اور جذبے ( چاروں عناصر) کی جامع ہے۔
 یہاں یہ بات بھی کی جانی چاہیے کہ اگر ہمارے شعور کا حقیقت سے طولی رشتہ ہو تو تاریخ، فلسفہ اور مذہب وجود میں آتے ہیں۔ اگر عرضی رشتہ ہو تو سائنسی علوم وجود میں آتے ہیں اور اگر عمقی رشتہ بھی ہو اور اس رشتے پر مستقبل کا پر تو پڑ رہا ہو تو شاعری وجود میں آتی ہے۔ شاعری ہی وہ فن ہے جو ماضی، حال اور مستقبل تینوں کو ہم عصر بناتا ہے۔ ذہن کی یہ خلاف معمول اور غیر معمولی طور پذیری اور طور پردازی ذہن کے مہذب ترین اختلال اور دانش مندانہ جنون کا نتیجہ ہوتی ہے ، شاعری میں ذہن وہ خلافِ معمول فعلیت اختیار کرتا ہے جو احساس ، تخیل اور تعقل کی باہمی اضافتوں کے تناسب میں اس کیفی طفرے (زقند) کی حیثیت رکھتی ہے جسے جذبے کی کیفیت اور کمیت کا آہنگ حاصل ہو۔
شاعری ایک دوہرا انسان چاہتی ہے جو حقیقت سے عقل اور جذبے کے ساتھ ابداعی معاملت کر سکتا ہو۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ شاعری ایک واقعے کو چار آنکھوں سے دیکھنے اور ایک کیفیت کو دو ذہنوں سے محسوس کرنے کا عمل ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شاعر ایک خاص فن کے نمایندے کی حیثیت سے مظاہر اور معانی اور ان کی مجموعیت کو کس معیار کی نسبت سے زد اور قبول کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اپنی پوری شعوری تربیت کے ساتھ جذبے کی نسبت ہے۔ اس لیے کہ وہ احساس، تخیل اور تعقل کے دائروں سے گزر چکا ہوتا ہے اور آخر میں ایک ہی دائرہ رہ جاتا ہے جہاں وہ اپنا تشخص حاصل کرتا ہے اور اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
اس مرحلے پر اس کے کردار کی نوعیت کے بارے میں سوال اٹھانا مناسب ہو گا۔ یعنی کیا اس کے کردار کی نوعیت اخلاقی ہوتی ہے یا جمالیاتی ؟ اس موقع پر یہ سوال بالکل منطقی ہے۔ اس سوال کا میں یہ جواب دینا چاہتا ہوں کہ اس کے کردار کی نوعیت اخلاقی ہوتی ہے۔ اور یہ وہ جواب ہے جس کی کم سے کم مجھ سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ یہاں میں اس بات کا یقین بھی دلا دوں کہ میں اپنے قاری کو چونکانے کا ادنیٰ سے ادنی رجحان بھی نہیں رکھتا۔ میں کیا کہنا چاہتا ہوں ؟ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ فن کے تعلق سے ہر وہ اخلاقیات جو جمالیات کے مفہوم سے کم یا زیادہ مفہوم رکھتی ہو وہ اخلاقیات نہیں ہوتی بلکہ عقیدہ ہوتی ہے۔ اور عقیدوں کا حُسن اور فن سے کوئی غیر مشروط تعلق نہیں ہوتا۔ میں ایک شاعر کی حیثیت سے عقیدوں کی مجموعیت کو رد کرتا ہوں ۔ عقیدوں کے نظام غیر مشروط حسن ، خیر اور فن سے تضاد کی نسبت رکھتے ہیں۔ چنانچہ ’’ بعد الطبیعی حقائق‘‘ کے شاعر ، شاعر سے بلند تر مرتبے کے حقدار تو ہو سکتے ہیں مگر شاعر نہیں ہو سکتے۔ اس لیے کہ شاعر کا سب سے گہرا رشتہ ’’ جمال‘‘ سے ہوتا ہے اور جمال غیر زمانی اور غیر مکانی نہیں ہوتا ۔ شاعرانہ حقیقت ماجد الطبیعی اور محض ذہنی نہیں ہوتی۔ کوئی اصیل شاعر محض کسی خیال اور’’ مثل‘‘ کے لیے ، شب بیداری ، خود آزاری اور اختر شماری سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ شاعرانہ حقیقت بلکہ تخلیقی حقیقت اپنی جوہریت میں غیر ذہنی اور خارجی ہوتی ہے ۔ اور خود شاعر کا وجود اس کے ذہن کے باہر پایا جاتا ہے۔ حقیقت اگر پائی جاتی ہے تو اس کے دو طور نہیں ہیں یعنی خارجی اور ذہنی ، بلکہ ایک ہی طور ہے جو خارجی بھی ہے اور ذہنی بھی۔ اور ذہنی بھی اس لیے ہے کہ خارجی ہے۔ ذات، بیرونِ ذات کی اور ذہن ، بیرونِ ذہن کی پیداوار ہے۔ علم کا ذریعہ صرف حواس ہیں اور حکم کا منصب صرف ذہن کو حاصل ہے جو حواس کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہاں میں نے حیثیت کا لفظ بہت سوچنے کے بعد استعمال کیا ہے۔ وجدان کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اور شاید وجدان کے تو کچھ معنی نکل بھی آئیں مگر اردو میں ’’ برگساں‘‘ کے کوئی معنی نہیں۔ ہم اپنے اندر نہیں سوچتے ، ہم اپنے باہر سوچتے ہیں۔ ہم اپنے اندر سوچ ہی نہیں سکتے۔ سوچ زبان کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اور زبان صرف خارج ہی کی نہیں بلکہ سماج اور سماجی رشتوں کی پیداوار ہے۔ فرد کے انفرادی وجود تک جو شے صرف آواز تھی، اس نے جب اجتماعی اعتبار پایا، تو زبان بن گئی۔
سچا شاعر ثابت ہونے کے لیے صرف ایک گواہی کی ضرورت ہے اور یہ گواہی اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب اپنی ذات کو بیرونِ ذات سے دیکھا ، پر کھا اور محسوس کیا جائے۔
ہمارے گھر کے درو دیوار جس بحر پر صبح و شام جھوما کرتے تھے، وہ بحر تھی ، رجز مثمن مطوی ، مخبون ۔ یہ بحر ہمارے گھر کے دالانوں ،کمروں، کیاریوں، زمینوں اور صحنوں میں آپ ہی آپ گنگنایا کرتی تھی۔ اس بحر میں مرزا سودؔا نے ایک بہت اچھی غزل کہی تھی مگر وہ ہمارا تر نیمی تجربہ نہیں بنی تھی۔ ہمارے گھر کی فضا تو سیدہ طاہرہ قرۃ العین کی غزل پر مرتعش ہوئی جو اس بحر میں کی گئی تھی۔
گر بتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ رُو بہ رُو
شرحِ غمِ وفا کنم نکتہ بہ نکتہ مُو بہ مُو
بابا اس عمل کے سحر میں مبتلا رہا کرتے تھے۔ جبکہ انہیں اس بحر میں غزل کہنے والی شاعرہ سے نفرت کرنی چاہیے تھی، اس لیے کہ اس خاتون نے بابا کا آبائی مذہب چھوڑ کر ایک نئے مذہب کو تقویت پہنچائی تھی۔ ہمارے بے حد مذ ہبی باباقرۃ العین طاہرہ سے شدید عقیدت رکھتے تھے۔ سیدہ قرۃ العین طاہرہ سیدانی بھی تھیں اور شیعہ بھی ، مگر بعد کو انھوں نے شیعہ مذہب میں شگاف ڈال کر ایک نئے فرقے کی تبلیغ میں تاریخی کردار ادا کیا، لیکن بابا بہت مذہبی ہونے کے باوجود شاعری کے معاملے میں بالکل غیرمذہبی تھے۔
یہاں سیدہ طاہرہ کی خاص بحر میں بابا کے دو شعر یاد آرہے ہیں ۔
آپ حریم ناز میں شوق سے آئیں بے حجاب
اب وہ جنوں جنوں نہیں ،اب وہ نظر نظر نہیں
دوسرا شعر منقبت کا ہے۔
روئے حسنؑ رخِ حسینؑ جلوہ طرازِ مشرقین
غازہ بہ غازہ خط بہ خط دیدہ بہ دیدہ بہ دو بہ دو
بابا کے زیرِ اثر یہ بحر مجھ پر بہت طاری رہی ہے۔ یہ بحر مجھ میں زمان و مکان کے احساس کی ایک تخلیق انگیز کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ میں بھی اس بحر میں کلام کرنا چاہتا تھا مگر اس وقت میں اس اہلیت سے محروم تھا۔ اس زمانے میں شاعری کے تین نمایاں مکاتب سرگرم تھے، ملی شاعری، قوم پرستانہ انقلابی شاعری اور سکہ بند غزل کی شاعری۔ علامہ اقبال ملی شاعری کے افق پر چھائے ہوئے تھے۔ شاعرِ انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی قوم پرستانہ انقلابی شاعری کے سب سے بالا قامت اور برومند شاعر تھے اور جگر صاحب ، علامہ آرزو لکھنوی، یاس یگانہ چنگیزی اور فراق صاحب غزل ، جہاں آشوب غزل کےسب سے محبوب نمائندے تھے۔
اب میں اپنی گفتگو اختتام تک پہنچانا چاہتا ہوں مگر ابھی کچھ باتیں باقی ہیں جن کا بیان ضروری ہے۔ ہم دانتے کا اعتراف و احترام کرنے میں کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ جبکہ اس نے آں حضرتؐ اور حضرت علیؑ کی شان میں شدید گستاخی کی تھی۔ ہم ڈارون اور لیمارک کے نظریہء ارتقا پر گفتگو کرتے اور اس پر لکھتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں کرتے حالانکہ یہ نظریہ مذہب کے خلاف ہے۔ ہم فرائڈ کے جنسی نظریے پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپنے آپ کو بالکل محفوظ پاتے ہیں جب کہ اس نظریے کے مطابق ایک بچے کامنہ میں چسنی لینا اور اسے چوستے رہنا اور ایک بوڑھے کا کسی مقدس شے کو بوسہ دینا، ان دونوں کا محرک جنس ہے۔ اور منارے اور گنبد جنہیں ہم مقدس حیثیت دیتے آئے ہیں، جنس کی علامتیں ہیں۔ یہ نظریات و خیالات صحیح ہوں یا غلط ، یہ ان لوگوں کے نظریات ہیں جنھیں امریکہ اور دوسرے سرمایہ دار ملکوں کے سیاسی کلیساؤں نے کبھی اپنی برہمی کا نشانہ نہیں بنایا لیکن جرمنی کے ایک غریب اور فاقہ کش مفکر نے جو اپنے مرتے ہوئے بچے کا علاج تک نہیں کر سکا ، جو اس کے مرنے پر کفن خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتا تھا ، اس نے جب انسانوں کے بنیادی مسئلے کی سائنسی نشاندہی کی تو وہ سرمایہ داروں کی تمام اقلیموں میں مذہب، روحانیت اور اخلاق کا باغی اور غدار ٹھہرا۔ یہ شخص مارکس تھا۔ یہ وہ شخص تھا جو نیم فاقہ کشی کی حالت میں ساری دنیا کے انسانوں کے دکھ کا مداوا سوچا کرتا تھا اور ایک دن اپنے عظیم اور قابلِ تسجید استغراق کی حالت میں بیٹھے بیٹھے مر گیا۔ ہم جب تاریخِ فکر کے اس محبوب اور بر گزیدہ بوڑھے اور اس کے زندگی پرور حکیمانہ نظریے کا کمیونزم کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے ذریعے اپنے عوام کی نیم جاں زندگی کا مداوا چاہتے ہیں تو ہم نئے مغربی سامراج اور اس کے مقامی دلالوں کے نزدیک اپنے ملکوں کے باغی اور غدار ٹھہرتے ہیں۔
 میں محسوس کر رہا ہوں جیسے میں فریادی ماتم کرنے لگا ہوں اور انفعالیت کا شکار ہو گیا ہوں۔ نہیں جناب ایسا ہر گز نہیں ہے، میں تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سرمایہ داری نظام کے قحبہ خانوں کا گریبان پکڑ کر انہیں سر عام کھینچ کے لانا ہمارے فنون اور ہماری دانش کا فرض ہے، امریکہ اور مغربی یورپ کی ڈیرے دار سرمایہ داری کا وجود بیسویں صدی کے تہذیبی شعور اور عمرانی احساسِ جمال کی توہین ہے۔
 تہذیب، خیر ،تناسب ، حسن اور انسانیتِ عالیہ کے بہترین خوابوں کے وارث جو دنیا کے دور دراز حصوں میں بکھرے ہوئے ہیں اور جن کے دلوں کی دھڑکنیں ایک عالمگیر دل کا جذباتی ، دانش آگیں ، فنی اور سماجی آہنگ ہیں، انہیں یہ آہنگ اپنی اولو العزم روحوں کی پُر تاثر ، احساس خیز، اقدام انگیر اور فیصلہ کن ہم آہنگی میں تحویل کر دینا چاہیے ۔ ہم مغرب ، مشرق ، شمال اور جنوب کی فضاؤں میں خواب دیکھنے والے شاعر اور ادیب اور شب و روز کی یکسانی میں انقلاب پرور زندگی بسر کرنے والے ہمارے درخشاں دل، درخشانِ دانش اور درخشانِ بینش رہنما مثالیہ طلبی کی ایک ہی کیفیت اور ایک ہی حالت میں سانس لیتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ کبھی کبھی ہمارے سانس پھول بھی جاتے ہیں۔
یہ ایک تاریخی عملیہ ہے جس سے ہمارے تاریخ ساز مفکر ، تخلیق کار اور کارکن پیش رو گزرتے چلے آئے ہیں اور اب ہم گزر رہے ہیں۔ ہم چلتے رہے ہیں ، ہم چل رہے ہیں اور سب سے بڑی خوش خبری یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ یقیناً ہماری اپنی اور ہم سب کی منزل تک پہنچ جائیں گے اور ہمارے ، ہم نہ پہنچنے والوں کے تخلیقی خواب اُن کی نگاہوں کے رہنما ہوں گے۔
ہم اپنے مثالیوں میں کسی قسم کی ترمیم اور تنسیخ کرنے سے معذور ہیں۔ حسن اور خیر میں کوئی ترمیم اور تنسیخ نہیں کی جاسکتی۔ سیاسی جمہوریت کے ساتھ معاشی جمہوریت ہمار امثالیہ رہی ہے اور رہے گی ۔ مگر یہ طرزِ فکر اذعانی ہے ۔
 ہاں ہے تو…
میرے پاس بہت کم وقت رہ گیا ہے میرے پاس اگر ایک ثانیہ بھی رہ گیا ہے تو وہ الیکٹرونی گھڑی کے مطابق ہزاروں آنات کا اثاثہ ہے جو میرے لیے بہت سے نئے خوابوں کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اورمیں خواب دیکھنے کے سوا کوئی ہنر جانتا بھی تو نہیں۔
 ہم نادیدہ افقوں سے اٹھنے والے بادلوں کا انتظار کرتے رہے کہ ہمیں سمتوں کو دھونا تھا، آبشاروں کے ہزاروں سے چھتنار پیڑوں اور پودوں کو دھونا تھا جو تاریخ کی گرد افشانی سے گرد آلود ہیں۔ تمہارے اور اپنے آنسوؤں سے بے سود گلہ مندیوں کے چہروں کو دھونا تھا… شاخوں … اور… ان کی جنبشوں کے آہنگ پر چہچہانے والے پرندوں کو اور ان کے پروں کو ، ان کی منقاروں کو دھونا تھا۔ ہواؤں اور بادلوں … اور بادلوں میں کوندتی ہوئی بجلیوں کو دھونا تھا۔ ہمیں اس دنیا کو دھونا تھا جس میں ہماری آج تک کی نسلیں سانس لیتی رہی ہیں۔ ہمیں یزداں، اہرمن اور انسان کو دھونا تھا مگر ہم کچھ بھی نہیں کر سکے۔
میں اپنے بعد آنے والوں کے پہل پرے کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ میری، میرے ساتھیوں کی آنکھیں ، ایک عمر سے سلگ رہی ہیں، جل رہی ہیں۔ میں ان آنے والوں کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنا ، ان کے ماتھے چومنا اور پھر اپنی پلکیں بند کر لینا چاہتا ہوں ۔
وہ آگئے ہیں تم آگئے ! میں جون ایلیا ہوں ، اچھا اب میں چلتا ہوں ، تم نے بہت انتظار کرایا، اور ہاں تمہاری ایک امانت میرے پاس رہ گئی ہے۔ یہ میرے خام اور نا تمام لفظ ہیں یعنی میرے اشعار ۔ میرے وہ اشعار جو میں نہیں کہہ سکا۔ انہیں شاید ڈیوڈ کہے گا یا احمد ، یا کیلاش یا شاید منوچر اور اب میں تمام ہوتا ہوں ۔
جون ایلیا
نگار خانہء اقبال مہدی
(کراچی)

شاید
میں شاید تم کو یکسر بھولنے والا ہوں
شاید، جانِ جاں شاید
کہ اب تم مجھ کو پہلے سے زیادہ یاد آتی ہو
ہے دل غمگیں، بہت غمگیں
کہ اب تم یاد دل وارانہ آتی ہو
شمیمِ دور ماندہ ہو
بہت رنجیدہ ہو مجھ سے
مگر پھر بھی
مشامِ جاں میں میرے آشتی مندانہ آتی ہو
جدائی میں بلا کا التفاتِ محرمانہ ہے
قیامت کی خبر گیری ہے
بےحد ناز برداری کا عالم ہے
تمہارے رنگ مجھ میں اور گہرے ہوتے جاتے ہیں
میں ڈرتا ہوں
میرے احساس کے اس خواب کا انجام کیا ہوگا
یہ میرے اندرونِ ذات کے تاراج گر،
جذبوں کے بیری وقت کی سازش نہ ہو کوئی
تمہارے اس طرح ہر لمحہ یاد آنے سے
دل سہما ہوا سا ہے
تو پھر تم کم ہی یاد آؤ
متاعِ دل، متاعِ جاں تو پھر تم کم ہی یاد آؤ
بہت کچھ بہہ گیا ہے سیلِ ماہ و سال میں اب تک
سبھی کچھ تو نہ بہہ جائے
کہ میرے پاس رہ بھی کیا گیا ہے
کچھ تو رہ جائے

رمز
تم جب آؤگی تو کھویا ہوا پاؤگی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن
مژدۂ عشرتِ انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پا سکتا

نوائے درونی
نیلگوں حُزن کے اکناف میں گم ہوتے ہوئے
مہرباں یاد کے اطراف میں گم ہوتے ہوئے
بے طرف شام کے ابہام کی سرسبزی میں
جو تنفس سے خموشی کے سنا ہے میں نے
ایسا نغمہ کسی آواز کے جنگل میں نہیں

شہرِ آشوب
گزر گئے پسِ در کی اشارتوں کے وہ دن
کہ رقص کرتے تھے مے خوار رنگ کھیلتے تھے
نہ محتسب کی تھی پروا، نہ شہرِ دار کی تھی
ہم اہلِ دل سرِ بازار رنگ کھیلتے تھے
غرورِ جبہ و دستار کا زمانہ ہے
نشاطِ فکر و بساطِ ہنر ہوئی برباد
فقیہ و مفتی و واعظ پہ حرف گیر ہو کون؟
یہ ہیں ملائکہ اور شہر جنتِ شداد
ملازمانِ حرم نے وہ تنگیاں کی ہیں
فضائیں ہی نہ رہیں رقصِ رنگ و بو کے لیے
یہ انتظام تو دیکھو خزاں پرستوں کا
بچھائی جاتی ہیں سنگینیاں نمو کے لیے
اسی ہوس میں ہیں ہر دم یہ دشمنانِ جمال
جو سوئے رنگ اٹھے اس نظر کو گُل کر دیں
جو بس چلے کہیں ان کا تو یہ فضا بیزار
شفق کا رنگ بجھا دیں سحر کو گُل کر دیں
ہوئی ہے جانبِ محراب سے وہ بارشِ سنگ
کہ عافیت خم ِ ابرو کی ہے بہت دشوار
ستم کیا ہے عجب منجنیقِ منبر نے
حریمِ دل کی سلامت نہیں رہی دیوار
یہ عہد وہ ہے کہ دانشورانِ عہد پہ بھی
منافقت کی شبیہوں کا خوف طاری ہے
نمازِ خوف کے دن ہیں کہ ان دنوں یارو
قلندروں پہ فقیہوں کا خوف طاری ہے
یہ ہیں وہ تیرہ دلانِ قلمروِ تاریخ
جو روشنائی ءِ دانش کا خون کرتے رہے
یہی تو ہیں جو حکیموں کی حکمتوں کے خلاف
ہر اک دور میں حاکم کے کان بھرتے رہے
ہیں ظلمتوں کی مربی طبیعتیں ان کی
کبھی یہ روشنیءِ طبع کو نہیں مانے
ہے روشنی کا انہیں ایک ہی نظارہ پسند
کہ جشنِ فتح منے اور جلیں کتب خانے
دیا ہے کام انہیں شب کے سر پرستوں نے
سپیدئہ سحری کو سیاہ کرنے کا
ملا ہے عہدہ کلیسائے غرب سے ان کو
شعورِ مشرقِ نو کو تباہ کرنے کا
گزشتہ عہد گزرنے ہی میں نہیں آتا
یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں
جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں

اجنبی شام
دھند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر
اُڑ رہے ہیں پرند ٹیلوں پر
سب کا رخ ہے نشیمنوں کی طرف
بستیوں کی طرف، بنوں کی طرف
اپنے گلوں کو لے کے چروا ہے
سرحدی بستیوں میں جا پہنچے
دلِ ناکام! میں کہاں جاؤں؟
اجنبی شام! میں کہاں جاؤں؟

وصال 
وہ میرا خیال تھی، سو وہ تھی
میں اس کا خیال تھا، سو میں تھا
اب دونوں خیال مر چکے ہیں

اعلانِ رنگ
سفید پرچم، سفید پرچم
یہ ان کا پرچم تھا جو شکاگو کے چوک میں جمع ہو رہے تھے
جو نرم لہجوں میں اپنی محرومیوں کی شدت سمو رہے تھے
کہ ہم بھی حقدارِ زندگی ہیں مگر دل افگارِ زندگی ہیں
ہمارے دل میں بھی کچھ امنگیں ہیں ہم بھی کچھ خواب  دیکھتے ہیں
خوشی ہی آنکھیں نہیں سجاتی ہے، غم بھی کچھ خواب دیکھتے ہیں
یکم مئی کی سحر نے جب اپنا نفسِ مضموں رقم کیا تھا
بلا نصیبوں کو زندگی کی امنگ نے ہم قدم کیا تھا
اور اک جریدہ نگارِ صبحِ شعورِ محنت نے آج کے دن
بنامِ محنت کشاں یہ پیغامِ حق سپردِ قلم کیا تھا
”الم نصیبو! بہادری سے، ستم نصیبو !بہادری سے
صفوں کو اپنی درست کر لو کہ جنگ آغاز ہو چکی ہے
تمہارے کتنے ہی باہنر ہاتھ ہیں جو بےروزگار ہیں آج
تمہارے کتنے نڈھال ڈھانچے گھروں میں بے انتظار ہیں آج
نظامِ دولت کے پنجہ ہائے درشت و خونیں شروع ہی سے
فریب ِ قانون و امن کی آڑ میں چھپے ہیں ، چھپے رہے ہیں
گروہِ محنت کشاں ہو تیری زبان پر اب بس ایک نعرہ
مفاہمت ختم ہو چکی ہے ، مفاہمت ختم ہو چکی ہے
ستمگروں سے ستم کشوں کی معاملت ختم ہو چکی ہے
یکم مئی کا حسابِ عظمت تو آنے والے ہی کر سکیں گے“
ہجوم گنجان ہو گیا تھا، عمل کا اعلان ہو گیا تھا
تمام محرومیاں ہم آواز ہو گئیں تھیں کہ ہم یہاں ہیں
ہمارے سینوں میں ہیں خراشیں ،ہمارے جسموں پہ دھجیاں ہیں
ہمیں مشینوں کا رزق ٹھیرا کے، رزق چھینا گیا ہمارا
ہماری بخشش پہ پلنے والو !ہمارا حصہ تباہیاں ہیں
مگر یہ اک خواب تھا، وہ اک خواب جس کی تعبیر خونچکاں تھی
رقم جو کی تھی قلم نے سرمایے کے وہ تحریر خونچکاں تھی
سفید پرچم نے خونِ محنت کو اپنے سینے پہ مل لیا تھا
یہ وقت کی سربلند تدبیر تھی ،یہ تدبیر خونچکاں تھی
دیارِ تاریخ کی فضائوں میں سرخ پرچم ابھر رہا تھا
یہ زندگی کی جلیل تنویر تھی یہ تنویر خونچکاں تھی
یکم مئی خون شدہ امنگوں کی حق طلب برہمی کا دن ہے
یکم مئی زندگی کے زخموں کی سرخرو شاعری کا دن ہے
یکم مئی اپنے خونِ ناحق کی سرخ پیغمبری کا دن ہے
یکم مئی زندگی کا اعلانِ رنگ ہے زندگی کا دن ہے
یہ زندگی خون کا سفر ہے اور ابتلا اس کی رہ گزر ہے
جو خون اس سیلِ خوں کی موجوں کو تند کر دے، وہ نامور ہے
یہ خون ہے ،خونِ سر زنندہ ،یہ خونِ زندہ ہے خونِ زندہ
وہ خون پرچم فراز ہوگا جو خونِ زندہ کا ہم سفر ہے
یہ خوں ہے سرنام یعنی سرنامہءِ کتابِ امم یہ خوں ہے
ادب گہِ اجتہادِ تاریخ میں نصابِ امم یہ خوں ہے
صلیبِ اعلانِ حرفِ حق کا خطیب بھی یہ، خطاب بھی یہ
یہ اپنا ناشر ہے اور منشورِ انقلابِ امم یہ خوں ہے
یہ خون ہی خیرِ جسم و جاں ہے اس امتحاں گاہِ زندگی میں
جہاں کہیں ظلم طعنہ زن ہو، وہاں جوابِ امم یہ خوں ہے
یہ خون ہی خواب دیکھتا ہےشکست کی شب بھی صبحِ نو کے
پھر اپنی ہی گردشوں میں تعبیر کوشِ خوابِ امم یہ خوں ہے
یہ خوں اٹھاتا ہے غاصبوں کے خلاف طوفاں بغاوتوں کے
ہوں عام جب زندگی کی خوشیاں
تو آب و تابِ امم یہ خوں ہے
جو ظلم سے دو بدو ہیں ان کی صفوں کو قوت پلائو، آئو
اسی طرح خونِ زندئہ ہر زماں، جہاں اقتدار ہوگا
نفاق اور افتراق ہی میں پناہ لیتے رہے ہیں ظالم
جو ظالموں کو پناہ دے گا ،وہ ظالموں میں شمار ہوگا

تعاقب
مجھ سے پہلے کے دن
اب بہت یاد آنے لگے ہیں تمہیں
خواب و تعبیر کے گم شدہ سلسلے
بار بار اب ستانے لگے ہیں تمہیں
دکھ جو پہنچے تھے تم سے کسی کو کبھی
دیر تک اب جگانے لگے ہیں تمہیں
اب بہت یاد آنے لگے ہیں تمہیں
اپنے وہ عہد و پیماں جو مجھ سے نہ تھے
کیا تمہیں مجھ سے اب کچھ بھی کہنا نہیں ؟

دوئی 
بوئے خوش ہو، دمک رہی ہو تم
رنگ ہو اور مہک رہی ہو تم
بوئے خوش! خود کو روبرو تو کرو
رنگ! تم مجھ سے گفتگو تو کرو
وقت ہے لمحہ لمحہ مہجوری
چاہے تم میری ہم نشیں بھی ہو
ہے تمہاری مہک میں حزنِ خیال
جیسے تم ہو بھی اور نہیں بھی ہو
میرے سینے میں چبھ رہا ہے وجود
اور دل میں سوال سا کچھ ہے
وقت مجھ کو نہ چھین لے مجھ سے
سرخوشی میں ملال سا کچھ ہے
میری جاں! ایک دوسرے کے لیے
جانے ہم ناگزیر ہیں کہ نہیں
تم جو ہو، تم ہو! میں جو ہوں، میں ہوں
دل ہوا ہے سکوں پذیر کہیں

برجِ بابِل
برجِ بابل کے بارے میں تو نے سنا؟
برج کی سب سے اوپر کی منزل کے بارے میں تو نے سنا؟
”مجھ سے کلدانیوں، کاہنوں نے کہا
بُرج کی سب سے اوپر کی منزل میں
اک تخت خوابِ قذاست ہے
جس پر خداوند آرام فرما رہا ہے“ *
خداوند اُن کا خدا
حضرت ِ اقدسِ کبریا
اور سر تا سرِ ارضِ بابل میں یعقوب کے مرد و زن
جاں کنی کی اذیت میں
زندہ رکھے جا رہے ہیں
یہی انکا مقسوم تھا
اور ازل سے خداوند آسودہ ہے
——————————–
*بنو اسرائیل کے دورِ اسیری کے بعد کے یونانی مورخ ہیروڈوٹس کے بیان سے استفادہ۔

بس ایک اندازہ 
برس گزرے تمہیں سوئے ہوئے
اٹھ جاؤ، سنتی ہو، اب اٹھ جاؤ
میں آیا ہوں
میں اندازے سے سمجھا ہوں
یہاں سوئی ہوئی ہو تم
یہاں روئے زمیں کے اس مقامِ آسمانی تَر کی حد میں
باد ہائے تند نے
میرے لیے بس ایک اندازہ ہی چھوڑا ہے!

سلسلہ تمنا کا
خیال و خواب کو اب مل نہیں رہی ہے اماں
نہ اب وہ مستی ٔ دل ہے نہ اب وہ نشۂ جاں
نہ ٹوٹ جائے کہیں سلسلہ تمنا کا
جو درد و دل کا تھا رشتہ اسے بحال کرو
نہیں ہے گردشِ ساغر تو گردشِ خوں ہے
سو اپنی گردشِ خوں سے ہی کچھ سوال کرو
ذرا تو سلسلۂ رنگ کا خیال کرو
زوالِ حال کے دن ہیں کوئی کمال کرو
ہے فصلِ یاس تو خود کو کوئی فریب ہی دیں
کوئی اُمید دلاؤ کہ آرزو تو رہے
نظر اُٹھے نہ اُٹھے دل ہی کچھ ٹھہر جائے
قدم اُٹھیں نہ اُٹھیں کوئی جستجو تو رہے
ہو چارۂ غمِ جاں کیا یہ گفتگو تو رہے
کہ دل کے حال کو پُر ماجرا تو رکھنا ہے
خیالِ ناز و لحاظِ ادا تو رکھنا ہے
نہ پیجئے مے حسرت ببانگِ چنگ مگر
کسی کی چشم سے کچھ سلسلہ تو رکھنا ہے
جو دل کا خون ہوا ہے اسے بھلا دیں کیا
حسابِ بیش و کمِ خوں بہا تو رکھنا ہے
شبِ دراز جدائی ہے آرزو کی حریف
سو زخم ِ شوق کو جلتا ہوا تو رکھنا ہے
نہ ٹوٹ جائے کہیں سلسلہ تمنا کا

قطعہ 
در ہجوِ ہم نشینانِ خود
وا دریغا کہ ہم نشیں میرے
میرا طرز ِبیاں چراتے ہیں
حیف صد حیف نقدِ جاں کے امیں
کیسہِ نقدِ جاں چراتے ہیں
اُمہاتِ یقیں کہ رحموں سے
نطفہ نطفہ گماں چراتے ہیں
خس و خاشاک طبع ہیں لیکن
دمِ شعلہ فشاں چراتے ہیں
ان پہ ہنسیے کہ روئیے آخر
رایگاں، شایگاں چراتے ہیں
نقل کر کے کراہنے کی مرے
میری بیماریاں چراتے ہیں
معترف ہوں کمال کا ان کے
میرے دل کا سماں چراتے ہیں
مے کش ایسے کہ اپنے نشے میں
میری انگڑائیاں چراتے ہیں
کیا بتاؤں ہیں کیسے دیدہ دلیر
مجھ سے ہی مجھ کو ہاں چراتے ہیں

اذیت کی یادداشت
موسمِ جسم و جاں، رایگاں
دل زمستاں زدہ طائرِ بے اماں
جس میں اب گرمیِ خواب پرواز تک بھی نہیں
دم بہ دم اُس گذشتہ میں برباد جانے کا احساس
جو ناگذشتہ کی سعیِ تلافی سے نومید ہے
روز، ہر روز
بے خواب آنکھوں میں چبھتا ہوا عکسِ آئینہ ءِ آتشیں
شب، سرِ شب سے تا آخرِ شب
یقین و گماں کی پیاپے شکستیں
کہ اب مہلتِ عمر کی وہ کمک بھی نہیں ہے
نَفَس، ہر نَفَس اپنی بے خواب آنکھوں سے اپنا تماشا
کہ یہ آدمی اپنے بستر پہ بے وار مارا گیا
صبح سے شام تک
منظروں کی نگاہوں میں وہ ناشناسی
کہ شاید میں گزرے ہوئے زمانوں میں آیا تھا
آیا بھی تھا یا نہیں

دریچہ ہائے خیال
چاہتا ہوں کہ بھول جاؤں تمہیں
اور یہ سب دریچہ ہائے خیال
جو تمہاری ہی سمت کھلتے ہیں
بند کر دوں کچھ اس طرح کہ یہاں
یاد کی اک کرن بھی آ نہ سکے
چاہتا ہوں کہ بھول جاؤں تمہیں
اور خود بھی نہ یاد آؤں تمہیں
جیسے تم صرف اک کہانی تھیں
جیسے میں صرف اک فسانہ تھا

سزا
ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم
ہر بار تم سے مل کے بچھڑتا رہا ہوں میں
تم کون ہو یہ خود بھی نہیں جانتی ہو تم
میں کون ہوں یہ خود بھی نہیں جانتا ہوں میں
تم مجھ کو جان کر ہی پڑی ہو عذاب میں
اور اس طرح خود اپنی سزا بن گیا ہوں میں
تم جس زمین پر ہو میں اس کا خدا نہیں
پس سر بسر اذیت و آزار ہی رہو
بیزار ہو گئی ہو بہت زندگی سے تم
جب بس میں کچھ نہیں ہے تو بیزار ہی رہو
تم کو یہاں کے سایہ و پرتو سے کیا غرض
تم اپنے حق میں بیچ کی دیوار ہی رہو
میں ابتدائے عشق سے بے مہر ہی رہا
تم انتہائے عشق کا معیار ہی رہو
تم خون تھوکتی ہو یہ سن کر خوشی ہوئی
اس رنگ اس ادا میں بھی پُرکار ہی رہو
میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
اپنی متاع ِناز لٹا کر مرے لیے
بازارِ التفات میں نادار ہی رہو
جب میں تمہیں نشاطِ محبت نہ دے سکا
غم میں کبھی سکونِ رفاقت نہ دے سکا
جب میرے سب چراغ ِتمنا ہوا کے ہیں
جب میرے سارے خواب کسی بے وفا کے ہیں
پھر مجھ کو چاہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں
تنہا کراہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں

سُوفطا 
وہ جو ہے، وہ مجھے
میرے شائستہ افکار
میرے ستودہ خیالات سے
باز رکھنے کی کوشش میں
ہر لمحہ سرگرم رہتا ہے
کل رات کی بات ہے
وہ پروٹاگورس کا جنا
نطفۂ نابجائے سو فسطائیاں
میرے بستر پر کروٹ بدلتے ہوئے
آپ ہی آپ کہنے لگا
لفظ معنی سے برتر ہیں
میں قبل ِ سقراط کے سب زباں ور حکیموں
کے سر کی قسم
کھا کے کہتا ہوں
یہ میری اُغلوطہ زائی نہیں
ژاژ خائی نہیں
لفظ برتر ہیں، معنی سے، معنائے ذی جاہ سے
اور وہ یوں کہ معنی تو پہلے سے موجود تھے
سن رہے ہو! میں واہی تباہی نہیں بک رہا
اپنی بستی کا سرشور، بیہودہ گفتار دیوانہ، جوداگرم ،
اپنے ہیجانِ معنی کی حالت میں
علامہ ایلیاء سے کسی بھی طور کم نہ تھا
یہ بھی سن لیجیے!
وائرس تک سرو برگِ الہامِ معنی سے پُرمایہ ہے
اب رہے لفظ
[بیچارے، جن کی، جنہیں مُبدعانہ روش سے
برتنے کے دشوار پرداز کی، رستورانوں کے
آسان طلب، نابہ ہنگام فقرہ طراز اور غوغائی
دانشوروں، شاعروں کے تئیں
ایک خارش زدہ بھیڑ کی چھینک سے
کچھ زیادہ حقیقت نہیں
کیا یہ بکواس ہے، صرف بکواس؟]
ہاں لفظ ایجاد ہیں
یہ ہزاروں، ہزاروں برس کے
سراسیمہ گر اجتہادِ تکّلم کا انعام ہیں
ان کے انساب ہیں
جن کی اسناد ہیں
اور پھر ان کی تاریخ ہے
اور معنی کی تاریخ کوئی نہیں

اس رایگانی میں
سو وہ آنسو ہمارے آخری آنسو تھے
جو ہم نے گلے مل کر بہائے تھے
نہ جانے وقت ان آنکھوں سے کس طور پیش آیا
مگر فریبِ وقت کی بہکی ہوئی آنکھوں نے
اس کے بعد بھی
آنسو بہائے ہیں
مرے دل نے بہت سے دکھ رچائے ہیں
مگریوں ہے کہ ماہ و سال کی اس رائیگانی میں
مری آنکھیں
گلے ملتے ہوئے رشتوں کی فرقت کے وہ آنسو
پھر نہ رو پائیں

بے اثبات
کس کو فرصت کہ مجھ سے بحث کرے
اور ثابت کرے کہ میرا وجود
زندگی کے لیے ضروری ہے

مگر یہ زخم یہ مرہم…
تمہارے نام تمہارے نشاں سے بے سروکار
تمہاری یاد کے موسم گزرتے جاتے ہیں
بس ایک منظر ِبے ہجر و وصل ہے جس میں
ہم اپنے آپ ہی کچھ رنگ بھرتے جاتے ہیں
نہ وہ نشاطِ تصور کہ لو تم آ ہی گئے
نہ زخمِ دل کی ہے سوزش کوئی جو سہنی ہو
نہ کوئی وعدہ و پیماں کی شام ہے نہ سحر
نہ شوق کی ہے کوئی داستاں جو کہنی ہو
نہیں جو محملِ لیلائے آرزو سر ِراہ
تو اب فضا میں فضا کے سوا کچھ اور نہیں
نہیں جو موجِ صبا میں کوئی شمیمِ پیام
تو اب صبا میں صبا کے سوا کچھ اور نہیں
اتار دے جو کنارے پہ ہم کو کشتیٔ وہم
تو گرد و پیش کو گرداب ہی سمجھتے ہیں
تمہارے رنگ مہکتے ہیں خواب میں جب بھی
تو خواب میں بھی انہیں خواب ہی سمجھتے ہیں
نہ کوئی زخم نہ مرہم کہ زندگی اپنی
گزر رہی ہے ہر احساس کو گنوانے میں
مگر یہ زخم یہ مرہم بھی کم نہیں شاید
کہ ہم ہیں ایک زمیں پر اور اک زمانے میں

جشن کا آسیب 
سکوتِ بیکراں میں سہ پہر کا چوک ویراں ہے
دکانیں بند ہیں
سارے دریچے بے تنفس ہیں
در و دیوار کہتے ہیں
یہاں سے ایک سیلِ شعلہ ہائے تُند گزرا ہے
پھر اُس کے بعد کوئی بھی نہیں آیا
خموشی کوچہ و برزن میں فریادی ہے
کوئی تو گزر جائے
کوئی آوازِ پا آئے
شمارِ لمحہ و ساعت سے بیگانہ فضا میں
اِک صدائے پرفشانی کوند اُٹھتی ہے
کوئی طائر فضا میں سایہ آسا تیر جاتا ہے
سگانِ زرد کا اِک غول اِک کوچے سے نکلا ہے
وہ تیزی سے گزر جاتے ہیں
وہ اور اُن کے سایے بھی
سکوتِ بیکراں میں سہ پہر کا چوک ویراں ہے

سرزمینِ خواب و خیال
(یومِ پاکستان کے موقع پر)
ہم نے اے سر زمینِ خواب وخیال
تجھ سے رکھا ہے شوق کو پُر حال
ہم نے تیری امید گاہوں میں
کی ہے اپنے مثالیوں کی تلاش
دل کے رنگِ خیال بندی کو
تو بھی اک بار دیکھ لے اے کاش
ختنِ جاں! ترے غزالوں کو
ہم نے جانِ غزل بنایا ہے
ہم نے دکھ سہہ کے تیرے لمحوں کو
جاودانِ غزل بنایا ہے
ذکر سے ہم ترے حسینوں کے
شوخ گفتار و خوش کلام ہوئے
تیری گلیوں میں ہو کے ہم بدنام
کتنے شہروں میں نیک نام ہوئے
حسنِ فردا کے خواب دیکھے ہیں
شوق نے تیری خواب گاہوں میں
ہم نے اپنا سراغ پایا ہے
تیری گلیوں میں تیری راہوں میں
تیری راتیں ہمارے خوابوں سے
اور بھی کچھ سہانیاں ہوں گی
ہم جو باتیں جنوں میں بکتے ہیں
دیکھنا جاودانیاں ہوں گی
ہم ہیں وہ ماجرا طلب جن کی
داستانیں زبانیاں ہوں گی
تیری محفل میں ہم نہیں ہوں گے
پر ہماری کہانیاں ہوں گی
جو تھے دشمن تری امنگوں کے
کب انہیں بے گرفت چھوڑا ہے
ہم نے اپنے درشت لہجے سے
آمروں کا غرور توڑا ہے
ہم تو خاطر میں بھی نہیں لاتے
اہلِ دولت کو ،شہر یاروں کو
ہم نوا گر ترے عوام کے ہیں
دوست رکھتے ہیں تیرے پیاروں کو
تُو ہے کاوش کا جن کی گل دستہ
اُن کا نام اُن کی نام داری ہو
تیرے شہروں میں اور دیاروں میں
حکم محنت کشوں کا جاری ہو
یہ بڑی سازگار مہلت ہے
یہ زمانہ بہت غنیمت ہے
شوق سے ولولے طلب کر لیں
جو نہ اب تک کیا ،وہ اب کر لیں
خوش بدن! پیرہن ہو سرخ ترا
دلبرا! بانکپن ہو سرخ ترا
ہم بھی رنگیں ہوں پرتوِ گل سے
جوشِ گل سے چمن ہو سرخ ترا
تیرے صحرا بھی پر بہار رہیں
غنچہ خیز و شگوفہ کار رہیں
دل بہ دل ربطِ جاں رہے تجھ سے
صف بہ صف تیرے جاں نثار رہیں
ہر فسانہ بہم کہا جائے
میں جو بولوں تو ہم کہا جائے

معمول 
جانے کب سے
مجھے یاد بھی تو نہیں جانے کب سے
ہم اک ساتھ گھر سے نکلتے ہیں
اور شام کو
ایک ہی ساتھ گھر لوٹتے ہیں
مگر ہم نے اک دوسرے سے
کبھی حال پُرسی نہیں کی
نہ اک دوسرے کو
کبھی نام لے کر مخاطب کیا
جانے ہم کون ہیں؟

رمزِ ہمیشہ 
اے خدا، اے خدایاں خدا، اے خداوند
 میں تجھ سے معمور تھا
خود سے مسحور تھا
 اور ایک میں ہی کیا
 نیلگوں آسمانوں سے دیوان خانے کی
سرسبز
نکہت نفس
کیاریوں تک کا سارا سماں
تجھ سے معمور تھا
 خود سے مسحور تھا
 شہر میں معجزوں اور
 موسم کے میووں کی بہتات تھی
 اور میووںکی چاہے کسی فصل میں
کچھ بھی کمی ہوئی ہو
مگر معجزے
روز افزوں تھے
ایمان کا ابرِ باذل
 دلوں کی زراعت کو شاداب رکھتا تھا
 شام و سحر اپنے مرموز آغاز و انجام کے
حسن میں
محو رہتے تھے
 وہ دور اپنے تحیر کی خر سند حالت میں
 اور اپنے ابہام کی دست و دل باز سمتوں کے
 پندارہ پرور مرامیز کی ہر علامت میں
اک خواب کا خواب تھا
خواب کی روبروئی تھی
اور چار سوئی تھی
 ہم خواب تھے اور خوابوں میں مشغول تھے
ایک دن
 شہر کے ایک شیوا بیاں اور خوش لہجہ نثار
 دیوان خانے میں تشریف لائے
جہاں ابنِ سکیّت کا
تذکرہ ہو رہا تھا
 ذرا دیر کے بعد
 اس تذکرے کے تسلسل میں وقفہ سا پیدا ہوا
 پس وہ بابا کی جانب نظر کر کے گویا ہوئے
 آپ حضرات نے آج کا معجزہ سن لیا؟
 ان پہ اک حالتِ گریہ طاری تھی
 پھر وہ گلوگیر آواز میں
 ساری روداد اُس معجزے کی سنانے لگے
 جو عزا خانہء شاہ مسکین میں
 دیکھ کر آئے تھے
مجھ کو ان کا بیاں آج بھی یاد ہے
 اک جواںحالتِ جاںکنی میں
ضریحِ مقدس کے محضر میں لایا گیا
 اور اس کو عَلم کے پھریرے کی
 انفاس پرور ہوا دی گئی
 اور پھر یہ ہوا
 وہ جواں اس طرح چونک اٹھا
جیسے اب تک وہ سویا ہوا تھا
مگر اب کسی کے جگانے سے
یک بارگی جاگ اٹھا ہے
اسے اک نئی زندگی مل گئی تھی
 وہاں کوئی بھی شخص ایسا نہیں تھا
 جسے اس پہ حیرت ہوئی ہو
 کہ یہ بات تو
چھوٹے حضرتؑ کے صدقے میں ہونی ہی تھی
وہ خجستہ وہ خوش ماجرا روز و شب
 روز و شب ہی نہ تھے
 اک زمانِ الوہی کا انعامِ جاری تھے
 اور ایک رمزِ ہمیشہ کا
 سرچشمہ ءجاوداں تھے
 وہ سر چشمہء جاوداں جس کی تاثیر سے
 اپنا احساسِ ذات ایک الہام تھا
 جس سے روحِ در و بام سرشار تھی
اس فضا میں کوئی شے فقط شے نہ تھی
ایک معنی تھی
معنی کا فیضان تھی
کتنا شفاف تھا روح کا آسماں
کتنی شاداب تھی آگہی کی زمیں
ہم کو اپنا نسب نامہ تا آدمِ بوالبشر یاد تھا
قبل ِ تاریخ کی ساری تاریخ ذہنوںمیں محفوظ تھی
 ہم کو صبحِ تخستینِ ایجاد سے
اپنے اجداد تک
اپنے دالان و در
ان کی بنیاد تک
 ساری تفصیلِ کون و مکاں یاد تھی
 ہم سب اپنے یقین و گماں کے فرحناک
اسرار میں
شاد و خرم تھے
خوش بین و خرسند تھے
 اے خداوند! میں تجھ سے معمور تھا
اور پھر
 عقلِ انگیزہ جو درمیاں آگئی اے خدا
 ایک سفاک پرخاش و پیکار تھی
 جو مرے اور مرے درمیاں چھڑ گئی تھی
 مرے ذہن میں
 نا سزا ،جاں گزا آگہی کا جہنم بھڑکنے لگا
اور پھر
 وہ زمانہ بھی آیا کہ جب
 میں ترے باب میں مضمحل ہوگیا
 بادِ یغما گرِ نفی و انکار نے
 ان فرحناک اسرار کے
 عالمِ خواب آگیں کو زیر و زبر کر دیا
 وہ خجستہ ،وہ خوش ماجرا روز و شب
 وہم و خواب و خیال و گماں ہو گئے
 وہ معانی، وہ احوالِ جاں آفریں
بے اماںہو گئے
فیضِ توفیق کی
وہ رسد رک گئی
وہ یقیں کے افق
بے نشاں ہو گئے
 جو بھی آسان تر تھا ،وہ دشوار تر ہو گیا
میری حالت یہ تھی
جیسے میں اک سفر کردئہ دور افتاد ہ ہوں
 اور ایقانِ فرخندہ و برگزیدہ کی وہ سر زمیں
میرے لمسِ کفِ پا سے
قرنوںکی دوری میں
گم ہو چکی ہے
میں تنہا ہوں
بے چارہ ہوں
جب میں دائیں طرف دیکھتا تھا
تو کیا دیکھتا تھا
 کہ انجیر و شہتوت پژمردہ ہیں
جب میں بائیں طرف دیکھتا تھا
 تو کیا دیکھتا تھا
کہ سارے شمالی پرندے
 جنوبی افق کے زبونی زدہ
زرد ابہام میں
پھڑپھڑاتے ہوئے
بے نشاں ہوتے جاتے ہیں
تب میں نے گزرے زمانوںمیں
 اور آنے والے زمانوں میں فریاد کی
 اے خدا!
اے خداوند!
اب مرا باطنِ ذات ویران ہے
اب درونِ دروں
اور بیرونِ بیروں
فقط اک خلا ہے
فقط ایک لا
 دہر دہر اور دیوم دیوم میں
 اب عدم در عدم کے سوا کچھ نہیں
 اے خداوند! تو کیا ہوا
مجھ کو تیرے نہ ہونے کی عادت نہیں
 وائے برحالِ ژرفا و بالا و پہنا!
 دریغا! سبب ہر مسبب سے اپنے جدا ہوگیا
حسرتا! کہکشاؤں کے گلّوں کا چوپان کوئی نہیں
اور پھر میں نے
 موجود کے دائرے کی نہایت پہ نالہ کیا
اے یقیں کے گماں
اے گماں کے یقیں
 اے ازل آفریں
اے ابد آفریں
اے خدا الوداع
اے خدایاں خدا
الوداع، الوداع

عشق سمجھے تھے جس کو وہ شاید
تھا بس اک نارسائی کا رشتہ
میرے اور اس کے درمیاں نکلا
عمر بھر کی جدائی کا رشتہ

افسانہ ساز جس کا فراق و وصال تھا
شاید وہ میرا خواب تھا شاید خیال تھا
یادش بخیر زخمِ تمنا کی فصلِ رنگ
بعد اس کے ہم تھے اور غمِ اندمال تھا
دشتِ گُماں میں ناقہ ء لیلیٰ تھا گرم خیز
شہرِ زیاں میں قیس اسیرِ عیال تھا
خونِ جگر کھپا کے مصور نے، یک نظر
دیکھا تو اک مُرقعِ بے خدوخال تھا
کل شورِ عرض گاہِ سوال و جواب میں
جو بھی خموش تھا، وہ عجب باکمال تھا
ہم ایک بے گزشتِ زمانہ زمانے میں
تھے حال مستِ حال جو ہر دم بحال تھا
پُرحال تھا وہ شب میرے آغوش میں مگر
اُس حال میں بھی اُس کا تقرب محال تھا
تھا مست اُس کے ناف پیالے کا میرا دل
اُس لب کی آرزو میں میرا رنگ لال تھا
اُس کے عروج کی تھی بہت آرزو ہمیں
جس کے عروج ہی میں ہمارا زوال تھا
اب کیا حسابِ رفتہ و آئندئہ گُماں
اک لمحہ تھا جو روز و شب و ماہ و سال تھا
کل ایک قصرِ عیش میں بزمِ سُخن تھی جونؔ
جو کچھ بھی تھا وہاں وہ غریبوں کا مال تھا

گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے
وہ کون ہے جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے
ترا خیال تو ہے پَر ترا وجود نہیں
ترے لیے تو یہ محفل سجائی تھی میں نے
ترے عدم کو گوارا نہ تھا وجود مرا
سو اپنی بیخ کنی کی کمی نہ کی میں نے
ہیں میری ذات سے منسوب صد فسانۂ عشق
اور ایک سطر بھی اب تک نہیں لکھی میں نے
خود اپنے عشوہ و انداز کا شہید ہوں میں
خود اپنی ذات سے برتی ہے بے رخی میں نے
مرے حریف مری یکہ تازیوں پہ نثار
تمام عمر حلیفوں سے جنگ کی میں نے
خراشِ نغمہ سے سینہ چھلا ہوا ہے مرا
فغاں کہ ترک نہ کی نغمہ پروری میں نے
دوا سے فائدہ مقصود تھا ہی کب کہ فقط
دوا کے شوق میں صحت تباہ کی میں نے
زبانہ زن تھا جگر سوز تشنگی کا عذاب
سو جوف سینہ میں دوزخ انڈیل لی میں نے
سرورِ مے پہ بھی غالب رہا شعور مرا
کہ ہر رعایتِ غم ذہن میں رکھی میں نے
غم ِشعور کوئی دم تو مجھ کو مہلت دے
تمام عمر جلایا ہے اپنا جی میں نے
علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
رہا میں شاہدِ تنہا نشینِ مسندِ غم
اور اپنے کربِ انا سے غرض رکھی میں نے

ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں
ہر ناز آفریں کو ستاتا رہا ہوں میں
اے خوش خرام! پاؤں کے چھالے تو گن ذرا
تجھ کو کہاں کہاں نہ پھراتا رہا ہوں میں
تجھ کو خبر نہیں کہ ترا حال دیکھ کر
اکثر ترا مذاق اڑاتا رہا ہوں
اک حسنِ بے مثال کی تمثیل کے لیے
پرچھائیوں پہ رنگ گراتا رہا ہوں میں
کیا مل گیا ضمیرِ ہنر بیچ کر مجھے
اتنا کہ صرف کام چلاتا رہا ہوں میں
روحوں کے پردہ پوش گناہوں سے بے خبر
جسموں کی نیکیاں ہی گناتا رہا ہوں میں
شاید مجھے کسی سے محبت نہیں ہوئی
لیکن یقین سب کو دلاتا رہا ہوں میں
اک سطر بھی کبھی نہ لکھی میں نے تیرے نام
پاگل تجھی کو یاد بھی آتا رہا ہوں میں
جس دن سے اعتماد میں آیا ترا شباب
اس دن سے تجھ پہ ظلم ہی ڈھاتا رہا ہوں میں
اپنا مثالیہ مجھے اب تک نہ مل سکا
ذروں کو آفتاب بناتا رہا ہوں میں
بیدار کر کے تیرے بدن کی خود آگہی
تیرے بدن کی عمر گھٹاتا رہا ہوں میں
کل دوپہر عجیب سی اک بے دلی رہی
بس تیلیاں جلا کے بجھاتا رہا ہوں میں

جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی
چاندنی میں ٹہل رہی ہوگی
چاند نے تان لی ہے چادرِ ابر
اب وہ کپڑے بدل رہی ہوگی
سو گئی ہوگی وہ شفق اندام
سبز قندیل جل رہی ہوگی
سرخ اور سبز وادیوں کی طرف
وہ مرے ساتھ چل رہی ہوگی
چڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پر
اب وہ کروٹ بدل رہی ہوگی
پیڑ کی چھال سے رگڑ کھا کر
وہ تنے سے پھسل رہی ہوگی
نیلگوں جھیل ناف تک پہنے
صندلیں جسم مل رہی ہوگی
ہو کے وہ خوابِ عیش سے بیدار
کتنی ہی دیر شل رہی ہوگی

خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی
میں بھی برباد ہو گیا ،تو بھی
حسنِ مغموم، تمکنت میں تری
فرق آیا نہ یک سرِ مُو بھی
یہ نہ سوچا تھا زیرِ سایۂ زلف
کہ بچھڑ جائے گی یہ خوش بو بھی
حسن کہتا تھا چھیڑنے والے
چھیڑنا ہی تو بس نہیں چھو بھی
ہائے وہ اس کا موج خیز بدن
میں تو پیاسا رہا لبِ جو بھی
یاد آتے ہیں معجزے اپنے
اور اس کے بدن کا جادو بھی
یاسمیں !اس کی خاص محرمِ راز
یاد آیا کرے گی اب تو بھی
یاد سے اس کی ہے مرا پرہیز
اے صبا !اب نہ آئیو تو بھی
ہیں یہی جونؔ ایلیا جو کبھی
سخت مغرور بھی تھے ،بد خو بھی

تو بھی چپ ہے، میں بھی چپ ہوں ،یہ کیسی تنہائی ہے ؟
تیرے ساتھ تری یاد آئی، کیا تو سچ مچ آئی ہے ؟
شاید وہ دن پہلا دن تھا پلکیں بوجھل ہونے کا
مجھ کو دیکھتے ہی جب اس کی انگڑائی شرمائی ہے
اس دن پہلی بار ہوا تھا مجھ کو رفاقت کا احساس
جب اس کے ملبوس کی خوشبو گھر پہنچانے آئی ہے
حسن سے عرضِ شوق نہ کرنا، حسن کو زک پہنچانا ہے
ہم نے عرضِ شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے
ہم کو اور تو کچھ نہیں سوجھا البتہ اس کے دل میں
سوزِ رقابت پیدا کر کے اس کی نیند اڑائی ہے
ہم دونوں مل کر بھی دِلوں کی تنہائی میں بھٹکیں گے
پاگل کچھ تو سوچ ،یہ تو نے کیسی شکل بنائی ہے ؟
عشقِ پیچاں کی صندل پر جانے کس دن بیل چڑھے
کیاری میں پانی ٹھہرا ہے، دیواروں پر کائی ہے
حسن کے جانے کتنے چہرے ،حسن کے جانے کتنے نام
عشق کا پیشہ حسن پرستی، عشق بڑا ہرجائی ہے
آج بہت دن بعد میں اپنے کمرے تک آ نکلا تھا
جوں ہی دروازہ کھولا ہے، اس کی خوشبو آئی ہے
ایک تو اتنا حبس ہے پھر میں سانسیں روکے بیٹھا ہوں
ویرانی نے جھاڑو دے کے گھر میں دھول اڑائی ہے

بے دلی کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے
رقص ہے رنگ پر رنگ ہم رقص ہیں
سب بچھڑ جائیں گے سب بکھر جائیں گے
یہ خراباتیانِ خرد باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے
کتنی دل کش ہو تم کتنا دلجو ہوں میں *
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
ہے غنیمت کہ اسرارِ ہستی سے ہم
بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے
—————————————-
*دو آدمیوں کے لیے لوگ کا لفظ استعمال کرنا قطعاً جائز نہیں، لہٰذااگر آپ چاہیں تو پہلا مصرع اس طرح پڑھیں: کتنے دل کش ہو تم، کتنے دل جو ہیں ہم۔

تیرا زیاں رہا ہوں میں، اپنا زیاں رہوں گا میں
تلخ ہے میری زندگی ، تلخ زباں رہوں گا میں
تیرے حضور، تجھ سے دور، جلتی رہے گی زندگی
شعلہ بجاں رہا ہوں میں، شعلہ بجاں رہوں گا میں
تجھ کو تباہ کر گئے ، تیری وفا کے ولولے
یہ مرا غم ہے میرا غم، اس میں تپاں رہوں گا میں
حیف نہیں ہے دیکھ بھال میری نصیب میں ترے
یعنی متاعِ بردہ ءِ کم نظراں رہوں گا میں
جاز کی دھن اداس ہے، دل بھی بہت اداس ہے
جانے کہاں بسے گی تو، جانے کہاں رہوں گا میں
ہم ہیں جدا جدا مگر، فن کی بساطِ رنگ پر
رقص کناں رہے گی تو، زمزمہ خواں رہوں گا میں

ہار جا اے نگاہِ ناکارہ
گُم افق میں ہوا وہ طیارہ
آہ وہ محملِ فضا پرواز
چاند کو لے گیا ہے سیارہ
صبح اُس کو وداع کر کے میں
نصف شب تک پھرا ہوں آوارہ
سانس کیا ہیں کہ میرے سینے میں
ہر نفس چل رہا ہے اِک آرا
کچھ کہا بھی جو اُس سے حال تو کب؟
جب تلافی رہی نہ کفارہ
کیا تھا آخر مِرا وہ عشقِ عجیب
عشق کا خوں کہ عشقِ خوں خوارہ
ناز کو جس نے اپنا حق سمجھا
کیا تمھیں یاد ہے وہ بے چارہ
چاند ہے آج کچھ نڈھال نڈھال
کیا بہت تھک گیا ہے ہرکارہ
اِس مسلسل شبِ جُدائی میں
خون تھوکا گیا ہے مہ پارہ
ہو گئی ہے میرے سفر کی سحر
کوچ کا بج رہا ہے نقارہ

ہیں عجیب رنگ کی داستاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
سو ہیں اب کہاں؟ مگر اب کہاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
نہ یقیں ہیں اب، نہ گماں ہیں اب، سو کہاں تھے جب، سو کہاں ہیں اب
وہ یقیں یقیں، وہ گماں گماں،گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
مری جاں وہ پل جو گئی نکل، کوئی پل تھی وہ کہ ازل، ازل
سو گذشتگی میں ہیں بے کراں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
وہی کارواں ہے کہ ہے رواں، وہی وصل و فصل ہیں درمیاں
ہیں غبارِ رفتہءِ کارواں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
تو مرے بدن سے جھلک بھی لے ، میں ترے بدن سے مہک بھی لوں
ہمہ نارسائی ہیں جانِ جاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
گلہ ءِ فراق تو کیوں بھلا طلبِ وصال تو کیا بھلا
کسی آگ کا تھے بس اک دھواں، گئی پل کا تو ، گئی پل کا میں

رامش گروں سے داد طلب انجمن میں تھی
وہ حالتِ سکوت جو اس کے سخن میں تھی
تھے دن عجب وہ کشمکشِ انتخاب کے
اک بات یاسمیں میں تھی، اک یاسمن میں تھی
رم خوردگی میں اپنے غزالِ ختن تھے ہم
یہ جب کا ذکر ہے کہ غزالہ ختن میں تھی
محمل کے ساتھ ساتھ میں آ تو گیا مگر
وہ بات شہر میں تو نہیں ہے جو بن میں تھی
کیوں کر سماعتوں کو خنک عیش کر گئی
وہ تند شعلگی جو نوا کے بدن میں تھی
خوباں کہاں تھے نکتہءِ خوبی سے با خبر
یہ اہلِ فن کی بات تھی اور اہلِ فن میں تھی
یاد آ رہی ہے پھر تری فرمائشِ سخن
وہ نغمگی کہاں مری عرضِ سخن میں تھی
آشوب ناک تھی نگہ ِ اوّلینِ شوق
صبحِ وصال کی سی تھکن اس بدن میں تھی
پہنچی ہے جب ہماری تباہی کی داستاں
عذرا وطن میں تھی نہ عنیزہ وطن میں تھی
میں اور پاسِ وضعِ خرد، کیا ہوا مجھے؟
میری تو آن ہی مرے دیوانہ پن میں تھی
انکار ہے تو قیمتِ انکار کچھ بھی ہو
یزداں سے پوچھنا یہ ادا اہرمن میں تھی

حال یہ ہے کہ خواہشِ پُرسشِ حال بھی نہیں
اُس کو خیال بھی نہیں، اپنا خیال بھی نہیں
اے شجرِ حیاتِ شوق، ایسی خزاں رسیدگی؟
پوششِ برگ و گُل تو کیا، جسم پہ چھال بھی نہیں*
مُجھ میں وہ شخص ہو چکا جس کا کوئی حساب تھا
سُود ہی کیا، زیاں ہے کیا، اس کا سوال بھی نہیں
مست ہیں اپنے حال میں دل زدگان و دلبراں
صُلح و سلام تو کُجا، بحث و جدال بھی نہیں
تُو میرا حوصلہ تو دیکھ، داد تو دے کہ اب مجھے
شوقِ کمال بھی نہیں، خوفِ زوال بھی نہیں
——————————
*اس مصرع میں پوشش کا لفظ ، برادرِ عزیز اظہر عباس ہاشمی کی دین ہے۔ (جون ایلیا)
خیمہ گہِ نگاہ کو لوٹ لیا گیا ہے کیا؟
آج افق کے دوش پر گرد کی شال بھی نہیں
اُف یہ فضا سے احتیاط، تا کہیں اڑ نہ جائیں ہم
بادِ جنوب بھی نہیں ، بادِ شمال بھی نہیں
وجہ معاشِ بے دلاں، یاس ہے اب مگر کہاں
اس کے درود کا گماں، فرضِ محال بھی نہیں
غارتِ روز و شب کو دیکھ، وقت کا یہ غضب تو دیکھ
کل تو نڈھال بھی تھا میں، آج نڈھال بھی نہیں
میرے زمان و ذات کا ہے یہ معاملہ کہ اب
صبحِ فراق بھی نہیں، شامِ وصال بھی نہیں
پہلے ہمارے ذہن میں حسن کی اک مثال تھی
اب تو ہمارے ذہن میں کوئی مثال بھی نہیں
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
نیند آنے لگی ہے فرقت میں
ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر
سوچتا ہوں تری حمایت میں
روح نے عشق کا فریب دیا
جسم کو جسم کی عداوت میں
اب فقط عادتوں کی ورزش ہے
روح شامل نہیں شکایت میں
عشق کو درمیاں نہ لاؤ کہ میں
چیختا ہوں بدن کی عسرت میں
یہ کچھ آسان تو نہیں ہے کہ ہم
روٹھتے اب بھی ہیں مروت میں
وہ جو تعمیر ہونے والی تھی
لگ گئی آگ اس عمارت میں
زندگی کس طرح بسر ہوگی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
حاصل کن ہے یہ جہان خراب
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں
پھر بنایا خدا نے آدم کو
اپنی صورت پہ ایسی صورت میں
اور پھر آدمی نے غور کیا
چھپکلی کی لطیف صنعت میں
اے خدا (جو کہیں نہیں موجود )
کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا ، اخلاص ، قربانی ، محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
سنا دیں عصمتِ مریم کا قصہ
پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم
زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریں ہم
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
اٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم
جو اک نسلِ فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
برہنہ ہیں سرِ بازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم
ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسا کیوں کریں ہم
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ
تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم
پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم

ہار آئی ہے کوئی آس مشین
شام سے ہے بہت اداس مشین
دل دہی کس مشین سے چاہے
ہے مشینوں سے بدحواس مشین
یہی رشتوں کا کارخانہ ہے
اک مشین اور اس کے پاس مشین
کام سے تجھ کو مس نہیں شاید
چاہتی ہے ذرا مساس مشین
یہ سمجھ لو کہ جو بھی جنگلی ہے
نہیں آئے گی اس کو راس مشین
شہر اپنے ، بسائیں گے جنگل
تجھ میں اُگنے کو اب ہے گھاس مشین
ہے خفا سارے کارخانے سے
ایک اسبابِ ناشناس مشین
ایک پرزا تھا وہ بھی ٹوٹ گیا
اب رکھا کیا ہے تیرے پاس مشین

ہے یہ بازار جھوٹ کا بازار
پھر یہی جنس کیوں نہ تولیں ہم
کر کے اک دوسرے سے عہدِ وفا
آئو کچھ دیر جھوٹ بولیں ہم

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
ثابت ہوا سکونِ دل و جاں کہیں نہیں
رشتوں میں ڈھونڈھتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
ترکِ تعلقات کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی
دیوار جانتا تھا جسے میں ، وہ دھول تھی
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی
اے شخص! اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی

جو رعنائی نگاہوں کے لیے فردوس جلوہ ہے
لباس مفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آتی
یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ
یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بد صورت نظر آتی

دو غزلہ
اخلاق نہ برتیں گے مداوا نہ کریں گے
اب ہم بھی کسی شخص کی پروا نہ کریں گے
کچھ لوگ کئی لفظ غلط بول رہے ہیں
اصلاح مگر ہم بھی اب اصلا نہ کریں گے
کم گوئی کہ اک وصفِ حماقت ہے بہ ہر طور
کم گوئی کو اپنائیں گے چہکا نہ کریں گے
اب سہل پسندی کو بنائیں گے وتیرہ
تا دیر کسی باب میں سوچا نہ کریں گے
غصہ بھی ہے تہذیبِ تعلق کا طلب گار
ہم چپ ہیں، بھرے بیٹھے ہیں، غصہ نہ کریں گے
کل رات بہت غور کیا ہے سو ہم اے جونؔ
طے کر کے اٹھے ہیں کہ تمنا نہ کریں گے
سوچا ہے کہ اب کارِ مسیحا نہ کریں گے
وہ خون بھی تھوکے گا تو پروا نہ کریں گے
اس بار وہ تلخی ہے کہ روٹھے بھی نہیں ہم
اب کے وہ لڑائی ہے کہ جھگڑا نہ کریں گے
یاں اس کے سلیقے کے ہیں آثار تو کیا ہم
اس پر بھی یہ کمرا تہ و بالا نہ کریں گے
اب نغمہ طرازانِ برافروختہ اے شہر !
واسوخت کہیں گے غزل انشا نہ کریں گے
ایسا ہے کہ سینے میں سلگتی ہیں خراشیں
اب سانس بھی ہم لیں گے تو اچھا نہ کریں گے

جانے کہاں گیا ہے وہ، وہ جو ابھی یہاں تھا
وہ جو ابھی یہاں تھا، وہ کون تھا، کہاں تھا
تا لمحۂ گزشتہ یہ جسم اور سائے
زندہ تھے رائیگاں میں ، جو کچھ تھا رائیگاں تھا
اب جس کی دید کا ہے سودا ہمارے سر میں
وہ اپنی ہی نظر میں اپنا ہی اک سماں تھا
کیا کیا نہ خون تھوکا میں اس گلی میں یارو
سچ جاننا وہاں تو جو فن تھا رائیگاں تھا
یہ وار کر گیا ہے پہلو سے کون مجھ پر
تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا
اس شہر کی حفاظت کرنی تھی ہم کو جس میں
آندھی کی تھیں فصیلیں اور گرد کا مکاں تھا
تھی اک عجب فضا سی امکانِ خال و خد کی
تھا اک عجب مصور اور وہ مرا گماں تھا
عمریں گزر گئی تھیں ہم کو یقیں سے بچھڑے
اور لمحہ اک گماں کا صدیوں میں بے اماں تھا
جب ڈوبتا چلا میں تاریکیوں کی تہ میں
تہ میں تھا اک دریچہ اور اس میں آسماں تھا

جانے یہاں ہوں میں یا میں
اپنا گماں ہوں میں یا میں
میری دوئی ہے میرا زیاں
اپنا زیاں ہوں میں یا میں
جانے کون تھا وہ یارو
جانے کہاں ہوں میں یا میں
ہر دم اپنی زد پر ہوں
جا سے اماں ہوں میں یا میں
میں جو ہوں اک حیرت کا سماں
کیا وہ سماں ہوں میں یا میں
کون ہے مجھ میں شعلہ بجاں
شعلہ بجاں ہوں میں یا میں
آگ، مرے ہونے کی آگ
تیرا دھواں ہوں میں یا میں

دل ہے سوالی تجھ سے دل آرا، اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا
آس ہے تیری ہی دلدارا، اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا
پلکوں کی جھولی پھیلی ہے، پڑ جائیں اس میں کچھ کرنیں
تو ہے دل آکاش کا تارا، اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا
ایک صدا ہونٹوں پر لے کے، تیری گلی میں ہم روتے تھے
آ نکلا ہے اک بے چارہ، اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا
تیرے ہی در کے ہم ہیں سوالی، تیرا ہی در دل میں کھلا ہے
شہرِ نظر در بند ہے سارا، اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا
تیرا تمنائی رکھتا ہے ، ایک نظر دیدارِ تمنا
ساجن پیارے، میرا پیارا، اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا
جاناں جان تری حسرت میں، رات بھلا کیسے گزرے گی
سارا دن حسرت میں گزارا، اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا
اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا، سینہ خالی کر ڈالا ہے
لے میں اپنی سانس بھی ہارا، اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا

کون سود و زیاں کی دنیا میں
دردِ غربت کا ساتھ دیتا ہے
جب مقابل ہوں عشق اور دولت
حسن دولت کا ساتھ دیتا ہے

ہے فصیلیں اٹھا رہا مجھ میں
جانے یہ کون آ رہا مجھ میں
جونؔ مجھ کو جلا وطن کر کے
وہ مرے بن بھلا رہا مجھ میں
مجھ سے اس کو رہی تلاش امید
سو بہت دن چھپا رہا مجھ میں
تھا قیامت سکوت کا آشوب
حشر سا اک بپا رہا مجھ میں
پس پردہ کوئی نہ تھا پھر بھی
ایک پردہ کھنچا رہا مجھ میں
مجھ میں آ کے گرا تھا اک زخمی
جانے کب تک پڑا رہا مجھ میں
اتنا خالی تھا اندروں میرا
کچھ دنوں تو خدا رہا مجھ میں
——————————
میرے شاعر دوستوں کو میری یہ ردیف بہت پسند آئی چنانچہ انہوں نے اس میں خوب خوب غزلیں کہیں۔ (جون ایلیا)

ہر نفس جس کی آرزو تھی مجھے
تھا وہی شخص میرے پہلو میں
اس میں کس کی تلاش تھی مجھ کو
کس کی خوشبو تھی اس کی خوشبو میں؟

تنگ آغوش میں آباد کروں گا تجھ کو
ہوں بہت شاد کہ ناشاد کروں گا تجھ کو
فکر ِایجاد میں گم ہوں مجھے غافل نہ سمجھ
اپنے انداز پر ایجاد کروں گا تجھ کو
نشہ ہے راہ کی دوری کا کہ ہمراہ ہے تو
جانے کس شہر میں آباد کروں گا تجھ کو
میری بانہوں میں بہکنے کی سزا بھی سن لے
اب بہت دیر میں آزاد کروں گا تجھ کو
میں کہ رہتا ہوں بصد ناز گریزاں تجھ سے
تو نہ ہوگا تو بہت یاد کروں گا تجھ کو

جنوں کریں ہوسِ ننگ و نام کے نہ رہیں
مگر نہ یوں ہو کہ ہم اپنے کام کے نہ رہیں
زیاں ہے اس کی رفاقت کہ اس کے دوش بدوش
چلیں تو منظر ِ حسنِ خرام کے نہ رہیں
کہاں ہے وصل سے بڑھ کر کوئی عطا لیکن
یہ خوب ہے کہ پیام و سلام کے نہ رہیں
نصیب ہو کوئی دم وہ معاشِ حال کے ہم
حسابِ سلسلہءِ صبح و شام کے نہ رہیں
یہ بات بھی ہے کہ لمحوں کے لوگ جائیں کہاں
اگر فریبِ بقا سے دوام کے نہ رہیں
خدا نہیں ہے تو کیا حق کو چھوڑ دیں اے شیخ!
غضب خدا کا ہم اپنے امام کے نہ رہیں

(زاہدہ حنا کے نام)
جاؤ قرارِ بے دلاں ! شام بخیر شب بخیر
صحن ہوا دھواں دھواں ، شام بخیر شب بخیر
شامِ وصال ہے قریب، صبحِ کمال ہے قریب
پھر نہ رہیں گے سرگراں ، شام بخیر شب بخیر
وجد کرے گی زندگی جسم بہ جسم جاں بہ جاں
جسم بہ جسم ، جاں بہ جاں ، شام بخیر شب بخیر
اے مرے شوق کی اُمنگ، میرے شباب کی ترنگ
تجھ پہ شفق کا سائباں ، شام بخیر شب بخیر
تو مری شاعری میں ہے رنگ طراز و گل فشاں
تیری بہار بے خزاں ، شام بخیر شب بخیر
تیرا خیال خواب خواب خلوتِ جاں کی آب و تاب
جسمِ جمیل و نوجواں ، شام بخیر شب بخیر
ہے مرا نام ارجمند ، تیرا حصار سر بلند
بانوِ شہر جسم و جاں ، شام بخیر شب بخیر
دید سے جانِ دید تک ، دل سے رخِ امید تک
کوئی نہیں ہے درمیاں ، شام بخیر شب بخیر
ہو گئی دیر جاؤ تم ، مجھ کو گلے لگاؤ تم
تو مری جاں ہے میری جاں ، شام بخیر شب بخیر
شام بخیر شب بخیر ، موجِ شمیمِ پیرہن
تیری مہک رہے گی یاں ،شام بخیر شب بخیر

کس سے اظہارِ مدعا کیجے
آپ ملتے نہیں ہیں کیا کیجے
ہو نہ پایا یہ فیصلہ اب تک
آپ کیا کیجے تو کیا کیجے
آپ تھے جس کے چارہ گر وہ جواں
سخت بیمار ہے دعا کیجے
ایک ہی فن تو ہم نے سیکھا ہے
جس سے ملیے اسے خفا کیجے
ہے تقاضا مری طبیعت کا
ہر کسی کو چراغِ پا کیجے
ہے تو بارے یہ عالمِ اسباب
بے سبب چیخنے لگا کیجے
آج ہم کیا گلہ کریں اس سے ؟
گلۂ تنگیٔ قبا کیجے
نطق حیوان پر گراں ہے ابھی
گفتگو کم سے کم کیا کیجے
حضرتِ زلفِ غالیہ افشاں
نام اپنا صبا صبا کیجے
زندگی کا عجب معاملہ ہے
ایک لمحے میں فیصلہ کیجے
مجھ کو عادت ہے روٹھ جانے کی
آپ مجھ کو منا لیا کیجے
ملتے رہیے اسی تپاک کے ساتھ
بے وفائی کی انتہا کیجے
کوہ کن کو ہے خودکشی خواہش
شاہ بانو سے التجا کیجے
مجھ سے کہتی تھیں وہ شراب آنکھیں
آپ وہ زہر مت پیا کیجے
رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب
خون تھوکوں تو واہ وا کیجے

یہ تیرے خط تری خوشبو یہ تیرے خواب و خیال
متاع جاں ہیں ترے قول اور قسم کی طرح
گذشتہ سال انہیں میں نے گن کے رکھا تھا
کسی غریب کی جوڑی ہوئی رقم کی طرح

گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا
تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا
یاد ہیں اب بھی اپنے خواب تمہیں
مجھ سے مل کر اداس بھی ہو کیا
بس مجھے یوں ہی اک خیال آیا
سوچتی ہو تو سوچتی ہو کیا
اب مری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا
کیا کہا عشق جاودانی ہے!
آخری بار مل رہی ہو کیا
ہاں فضا یاں کی سوئی سوئی سی ہے
تو بہت تیز روشنی ہو کیا
میرے سب طنز بے اثر ہی رہے
تم بہت دور جا چکی ہو کیا
دل میں اب سوزِ انتظار نہیں
شمعِ امید بجھ گئی ہو کیا
اس سمندر پہ تشنہ کام ہوں میں
بان ، تم اب بھی بہہ رہی ہو کیا

منظر سا تھا کوئی کہ نظر اس میں گم ہوئی
سمجھو کہ خواب تھا کہ سحر اس میں گم ہوئی
سودائے رنگ وہ تھا کہ اُترا خود اپنا رنگ
پھر یہ کہ ساری جنسِ ہنر اس میں گم ہوئی
وہ میرا اک گمان کہ منزل تھا جس کا نام
ساری متاعِ شوقِ سفر اس میں گم ہوئی
دیوار کے سوا نہ رہا کچھ دلوں کے بیچ
ہر صورتِ کشایشِ در اس میں گم ہوئی
لائے تھے رات اس کی خبر قاصدانِ دل
دل میں وہ شور اٹھا کہ خبر اس میں گم ہوئی
اک فیصلے کا سانس تھا اک عمر کا سفر
لیکن تمام راہ گزر اس میں گم ہوئی
بس جونؔ کیا کہوں کہ مری ذاتِ نفع جو
جس کام میں یہاں تھا ضرور اس میں گم ہوئی

سر میں تکمیل کا تھا اِک سودا
ذات میں اپنی تھا ادھورا میں
کیا کہوں تم سے کتنا نادم ہوں
تم سے مل کر ہوا نہ پورا میں

وہ زلف ہے پریشاں، ہم سب ادھر چلے ہیں
تم بھی چلو کہ سارے آشفتہ سر چلے ہیں
تم بھی چلو غزالاں ، کوئے غزال چشماں
درشن کا آج دن ہے سب خوش نظر چلے ہیں
رنگ اس گلی خزاں کے موسم میں کھیلنے کو
خونیں دلاں گئے ہیں خونیں جگر چلے ہیں
اب دیر مت لگا چل، اے یار بس چلا چل
دیکھیں یہ خوش نشینیاں آخر کدھر چلے ہیں
بس اب پہنچ چکے ہیں ہم یاراں سوئے بیاباں
ساتھ اپنے ہم کو لے کر دیوار و در چلے ہیں
دنیا تباہ کر کے ہوش آگیا ہے دل کو
اب تو ہماری سن اب ہم سدھر چلے ہیں
ہے سلسلے عجب کچھ اس خلوتی سے اپنا
سب اس کے گھر چلے ہیں ہم اپنے گھر چلے ہیں !

یوں تو اپنے قاصدانِ دل کے پاس
جانے کس کس کے لیے پیغام ہیں
جو لکھے جاتے رہے اوروں کے نام
میرے وہ خط بھی تمہارے نام ہیں

خود سے ہر دم ترا سفر چاہوں
تجھ زبانی تری خبر چاہوں
میں تجھے اور تُو ہے کیا کیا کچھ
ہوں اکیلا پہ رات بھر چاہوں
مجھ سے میرا سراغ کیوں کہ یہ کام
میں ترے نقشِ پا کے سر چاہوں
خونِ گرم اپنا ، پارچے اپنے
میں خود اپنی ہی میز پر چاہوں
ہیں بیاباں مری درازوں میں
کیوں بگولے برہنہ سر چاہوں
مجھ کو گہرائی میں اترنا ہے
پر میں گہرائی سطح پر چاہوں
کام کیا چیز ہے کہ نام بھی ہیں
کام کے نام پر نہ کر چاہوں
اک نظر ڈالنی ہے منظر پر
کہکشائیں کمر کمر چاہوں
ضد ہے زخموں میں بیر جذبوں میں
میں کئی دل کئی جگر چاہوں
اب تو اس سوچ میں ہوں سرگرداں
کیا میں چاہوں بھلا اگر چاہوں

سرکار! اب جنوں کی ہے سرکار کچھ سنا
ہیں بند سارے شہر کے بازار کچھ سنا
شہرِ قلندراں کا ہوا ہے عجیب طور
سب ہیں جہاں پناہ سے بیزار کچھ سنا
مصروف کوئی کاتبِ غیبی ہے روز و شب
کیا ہے بھلا نوشتۂ دیوار کچھ سنا
آثار اب یہ ہیں کہ گریبانِ شاہ سے
الجھیں گے ہاتھ برسرِ دربار کچھ سنا
اہلِ ستم سے معرکہ آرا ہے اک ہجوم
جس کو نہیں ملا کوئی سردار کچھ سنا
خونیں دِلان مرحلہ امتحاں نے آج
کیا تمکنت دکھائی سرِ وار کچھ سنا
کیا لوگ تھے کہ رنگ بچھاتے چلے گئے
رفتار تھی کہ خون کی رفتار کچھ سنا

ہر طنز کیا جائے ، ہر اک طعنہ دیا جائے
کچھ بھی ہو پر اب حدِ ادب میں نہ رہا جائے
تاریخ نے قوموں کو دیا ہے یہی پیغام
حق مانگنا توہین ہے حق چھین لیا جائے

نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئے
تیری مثال دے کے ہم تیری مثال ہو گئے
سایۂ ذات سے بھی رَم، عکسِ صفات سے بھی رَم
دشتِ غزل میں آ کے دیکھ ہم تو غزال ہو گئے
کہتے ہی نشہ ہائے ذوق، کتنے ہی جذبہ ہائے شوق
رسمِ تپاکِ یار سے رو بہ زوال ہو گئے
عشق ہے اپنا پائیدار تیری وفا ہے استوار
ہم تو ہلاکِ ورزشِ فرضِ محال ہو گئے
کیسے زمیں پرست تھے عہدِ وفا کے پاسدار
اُڑ کے بلندیوں میں ہم ، گردِ ملال ہو گئے
جادۂ شوق میں پڑا قحطِ غبارِ کارواں
واں کے شجر تو سر بسر دستِ سوال ہو گئے
سخت زمیں پرست تھے عہدِ وفا کے پاسدار
اڑ کے بلندیوں میں ہم گردِ ملال ہو گئے
قربِ جمال اور ہم ، عیشِ وصال اور ہم
ہاں یہ ہوا کہ ساکنِ شہرِ جمال ہو گئے
ہم نفسانِ وضع دار، مستمعانِ بردبار
ہم تو تمہارے واسطے ایک وبال ہو گئے
کون سا قافلہ ہے یہ جس کے جرس کا ہے یہ شور
میں تو نڈھال ہو گیا ، ہم تو نڈھال ہو گئے
خار بہ خار، گل بہ گل، فصلِ بہار آ گئی
فصلِ بہار آ گئی زخم بحال ہو گئے
شور اٹھا مگر تجھے لذتِ گوش تو ملی
خون بہا مگر ترے ہاتھ تو لال ہو گئے
جونؔ کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
اب کئی ہجر ہو چکے اب کئی سال ہو گئے

کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو
تو اس بستی میں رہیو ، پر نہ رہیو
سفر کرنا ہے آخر دو پلک بیچ
سفر لمبا ہے بے بستر نہ رہیو
ہر اک حالت کے بیری ہیں یہ لمحے
کسی غم کے بھروسے پر نہ رہیو
سہولت سے گزر جاؤ مری جاں
کہیں جینے کی خاطر مر نہ رہیو
ہمارا عمر بھر کا ساتھ ٹھیرا
سو میرے ساتھ تو دن بھر نہ رہیو
بہت دشوار ہو جائے گا جینا
یہاں تو ذات کے اندر نہ رہیو
سویرے ہی سے گھر آ جائیو آج
ہے روز واقعہ باہر نہ رہیو
کہیں چھپ جاؤ تہ خانوں میں جا کر
شبِ فتنہ ہے اپنے گھر نہ رہیو
نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر
جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو

زیرِ محراب ابرواں خوں ہے
از زمیں تا بہ آسماں خوں ہے
ایک بسمل کا رقصِ رنگ تھا آج
سرِ مقتل جہاں تہاں خوں ہے
زخم کے خرمنوں کا مژدہ ہو
آبِ کشتِ بلا کشاں خوں ہے
سادہ پوشانِ عیدِ شوق، نوید
آبِ حوضِ نمازیاں خوں ہے
باب ہے حسرتوں کی محنت گاہ
دلِ یارانِ خے فشاں خوں ہے
زخم انگیز ہے خراشِ امید
ہے دیدارِ گل رخاں خوں ہے
ہو گئے باریاب اہلِ غرض
روئے دہلیز و آسماں خوں ہے
دلِ خونیں ہے میزباں اپنا
عمدئہ خوانِ میزبان خوں ہے
فصل آئی ہے رنگِ مستوں کی
تابہ دیوارِ گلستاں خوں ہے
ہر تماشائی مدعی ٹھہرا
پر تو زخمِ خوں چکاں خوں ہے
میں ہوں بے داغ دامناں محتاط
نفسِ خوں گرفتگاں خوں ہے
غنچہ ہا زخم ، زخم ہا الماس
شبنمِ باغِ امتحاں خوں ہے
اُس طرف کوہ کن ، اِدھر شیریں
اور دونوں کے درمیاں خوں ہے
بے دلوں کو نہ چھیڑیو کہ یہ قوم
امتِ شوقِ رائیگاں خوں ہے

غبارِ محملِ گل پر ہجوم یاراں ہے
کہ ہر نفس، نفسِ آخرِ بہاراں ہے
بتاؤ وجد کروں یا لبِ سخن کھولوں
ہوں مستِ راز اور انبوہِ رازداراں ہے
مٹا ہوا ہوں شباہت پہ نامداروں کی
چلا ہوں کہ یہی وضعِ نامداراں ہے
چلا ہوں پھر سرِ کوئے دراز مژگاناں
مرا ہنر ، زخمِ تازہ داراں ہے
یہی وقت کہ آغوش دار رقص کروں
سرورِ نیم شبی ہے صفِ نگاراں ہے
ہوا ہے وقت کہیں سے علیمؔ کو لاؤ
ہے ایک شخص جو کمبخت یارِ یاراں ہے
فراقِ یار کو ٹھیرا لیا ہے عذرِ ہوس
کوئی بتاؤ یہی رسمِ سوگواراں ہے

میں نے ہر بار تجھ سے ملتے وقت
تجھ سے ملنے کی آرزو کی ہے
تیرے جانے کے بعد بھی میں نے
تیری خوشبو سے گفتگو کی ہے

تجھ سے گلے کروں تجھے جاناں مناؤں میں
اک بار اپنے آپ میں آؤں تو آؤں میں
دل سے ستم کی بے سروکاری ہوا کو ہے
وہ گرد اڑ رہی ہے کہ خود کو گنواؤں میں
وہ نام ہوں کہ جس پہ ندامت بھی اب نہیں
وہ کام ہیں کہ اپنی جدائی کماؤں میں
کیوں کر ہو اپنے خواب کی آنکھوں میں واپسی
کس طور اپنے دل کے زمانوں میں جاؤں میں
اک رنگ سی کمان ہو خوشبو سا ایک تیر
مرہم سی واردات ہو اور زخم کھاؤں میں
شکوہ سا اک دریچہ ہو، نشہ سا اک سکوت
ہو شام اک شراب سی اور لڑکھڑاؤں میں
پھر اس گلی سے اپنا گزر چاہتا ہے دل
اب اس گلی کو کون سی بستی سے لاؤں میں

پاس رہ کر جدائی کی تجھ سے
دور ہو کر تجھے تلاش کیا
میں نے تیرا نشان گم کر کے
اپنے اندر تجھے تلاش کیا

ہم جو گاتے چلے گئے ہوں گے
زخم کھاتے چلے گئے ہوں گے
تھا ستم بار بار کا ملنا
لوگ بھاتے چلے گئے ہوں گے
دور تک باغ اس کی یادوں کے
لہلہاتے چلے گئے ہوں گے
فکر اپنے شرابیوں کی نہ کر
لڑکھڑاتے چلے گئے ہوں گے
ہم خود آزار تھے سو لوگوں کو
آزماتے چلے گئے ہوں گے
ہم جو دنیا سے تنگ آئے ہیں
تنگ آتے چلے گئے ہوں گے

اس کے اور اپنے درمیان میں اب
کیا ہے بس روبرو کا رشتہ ہے
ہائے وہ رشتہ ہائے خاموشی
اب فقط گفتگو کا رشتہ ہے

پہنائی کا مکان ہے اور در ہے گُم یہاں
راہِ گریز پائی ِ صر صر ہے گُم یہاں
وسعت کہاں کہ سمت وجہت پرورش کریں
بالیں کہاں سے لائیں کہ بستر ہے گُم یہاں
ہے ذات کا وہ زخم کہ جس کا شگافِ رنگ
سینے سے دل تلک ہے پہ خنجر ہے گُم یہاں
بس طور کچھ نہ پوچھ میری بود و باش کا
دیوار و در ہیں جیب میں اور گھر ہے گُم یہاں
بیرونِ ذات کیسے ہے صد ماجرا فروش
وہ اندرونِ ذات جو اندر ہے گُم یہاں
کس شاہراہ پر ہوں رواں میں بہ صد شتاب
اندازِ پا درست ہے اور سر ہے گُم یہاں
ہیں صفحۂ وجود پہ سطریں کھنچی ہوئی
دیوار پڑھ رہا ہوں مگر در ہے گُم یہاں

کیا بتاؤں کہ سہ رہا ہوں میں
کرب خود اپنی بے وفائی کا
کیا میں اس کو تری تلاش کہوں؟
دل میں اک شوق ہے جدائی کا

دو غزلہ
مرا اِک مشورہ ہے اِلتجا نئیں
تو میرے پاس سے اس وقت جا نئیں
کوئی دَم چَین پڑ جاتا مجھے بھی
مگر میں خُود سے دَم بھر کو جُدا نئیں
میں خُود سے کچھ بھی کیوں منوا رہا ہوں
میں یاں اپنی طرف بھیجا ہوا نئیں
پتا ہے جانے کس کا ، نام میرا
مرا کوئی پتا ، میرا پتا نئیں
سفر درپیش ہے اک بے مسافت
مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نئیں
ذرا بھی مجھ سے تم غافل نہ رہیو
میں بے ہوشی میں بھی بے ماجرا نئیں
دُکھ اُس کے ہجر کا، اب کیا بتاؤں
کہ جس کا وصل بھی تو بے گلہ نئیں
ہیں اس قامت سوا بھی کتنے قامت
پر اِک حالت ہے جو اس کے سوا نئیں
محبت کچھ نہ تھی جز بدحواسی
کہ وہ بندِ قبا ، ہم سے کُھلا نئیں
وہ خُوشبو مجھ سے بچھڑی تھی یہ کہہ کر
منانا سب کو ، پر اب روٹھنا نئیں
یہاں معنی کا بے صورت صِلا نئیں
عجب کچھ میں نے سوچا ہے،لکھا نئیں
ہیں سب اک دوسرے کی جستجو میں
مگر کوئی کسی کو بھی ملا نئیں
ہمارا ایک ہی تو مدعا تھا
ہمارا اور کوئی مدعا نئیں
کبھی خود سے مُکر جانے میں کیا ہے
میں دستاویز پر لکھا ہوا نئیں
یہی سب کچھ تھا،جس دم وہ یہاں تھا
چلے جانے پہ اس کے جانے کیا نئیں
بچھڑ کے جان تیرے آستاں سے
لگایا جی بہت ، پر جی لگا نئیں
جدائی اپنی بے روداد سی تھے
کہ میں رویا نہ تھا اور پھر ہنسا نئیں
وہ ہجر و وصل تھا سب خواب در خواب
وہ سارا ماجرا جو تھا وہ تھا نئیں
بڑا بے آسرا پن ہے سو چُپ رہ
نہیں ہے یہ کوئی مژدہ خدا نئیں

اب وہ گھر اک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا
سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں اور میں تنہا زندہ تھا
ساری گلی سنسان پڑی تھی بادِ فنا کے پہرے میں
ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا
وہ جو کبوتر اس موکھے میں رہتے تھے کس دیس اُڑے
ایک کا نام نوازندہ تھا اور اک کا بازندہ تھا
وہ دوپہر اپنی رخصت کی ایسا ویسا دھوکا تھی
اپنے اندر اپنی لاش اٹھائے میں جھوٹا زندہ تھا
تھیں وہ گھر راتیں بھی کہانی، وعدے اور پھر دن گننا
آنا تھا جانے والے کو ، جانے والا زندہ تھا
دستک دینے والے بھی تھے، دستک سننے والے بھی
تھا آباد محلہ سارا ، ہر دروازہ زندہ تھا
پیلے پتوں کو سہ پہر کی وحشت پرسا دیتی تھی
آنگن میں اک اوندھے گھڑے پر بس اک کوا زندہ تھا

تھی جو وہ اک تمثیل ماضی آخری منظر اس کا یہ تھا
پہلے اک سایہ سا نکل کے گھر سے باہر آتا ہے
اس کے بعد کئی سائے سے اس کو رخصت کرتے ہیں
پھر دیواریں ڈھے جاتی ہیں دروازہ گر جاتا ہے

ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے
پاؤں پھسلا تو آسمان میں تھے
ہے ندامت لہو نہ رویا دل
زخم دل کے کسی چٹان میں تھے
میرے کتنے ہی نام اور ہمنام
میرے اور میرے درمیان میں تھے
میرا خود پر سے اِعتماد اُٹھا
کتنے وعدے مری اُٹھان میں تھے
تھے عجب دھیان کے در و دیوار
گرتے گرتے بھی اپنے دھیان میں تھے
واہ! اُن بستیوں کے سنّاٹے
سب قصیدے ہماری شان میں تھے
آسمانوں میں گر پڑے یعنی
ہم زمیں کی طرف اُڑان میں تھے

ہم کہاں اور تم کہاں جاناں
ہیں کئی ہجر درمیاں جاناں
رائیگاں وصل میں بھی وقت ہوا
پر ہوا خوب رائیگاں جاناں
میرے اندر ہی تو کہیں گم ہے
کس سے پوچھوں ترا نشاں جاناں
عالمِ بیکرانِ رنگ ہے تو
تجھ میں ٹھہروں کہاں کہاں جاناں
میں ہواؤں سے کیسے پیش آؤں
یہی موسم ہے کیا وہاں جاناں
روشنی بھر گئی نگاہوں میں
ہو گئے خواب بے اماں جاناں
درد مندانِ کوئے دلداری
گئے غارت جہاں تہاں جاناں
اب بھی جھیلوں میں عکس پڑتے ہیں
اب بھی نیلا ہے آسماں جاناں
ہے جو پرخوں تمہارا عکسِ خیال
زخم آئے کہاں کہاں جاناں

ہے رنگِ ایجاد بھی دل میں اور زخمِ ایجاد بھی ہے
یعنی جاناں دل کا تقاضا آہ بھی ہے فریاد بھی ہے
تیشہء ناز نے میری انا کے خوں کی قبا پہنائی مجھے
میں جو ہوں پرویز ہوں اک جو ظالم فرہاد بھی ہے
منحصر اس کی منشا پر ہے کس طور اس سے پیش آؤں
قید مری بانہوں میں وہ ہو کر وہ قاتل آزاد بھی ہے
جونؔ جدا تو رہنا ہو گا تجھ کو اپنے یاروں بیچ
یار ہی تو یاروں کا نہیں ہے یاروں کا استاد بھی ہے
ساری ردیفیں بھی حاضر ہیں پھر ساری ترکیبیں بھی
اور تمہیں کیا چاہیئے یارو ، حاصل میری داد بھی ہے

رقصِ جاں میں ہیں زخم ساماناں
سرِ کوئے دراز مژگاناں
اب نہیں حال سینہ کوبی کا
آؤ سینے سے آ لگو جاناں
میرا حق تو یہ تھا کہ گِرد مرے
ہو اک انبوہِ نار پستاناں
اپنی ورزش کے دھیان ہی سے ہمیں
مار رکھتے ہیں صندلیں راناں
ہائے وہ نارسائیاں جو گئیں
بحسابِ مزاج درباناں
داغ سینے کے کچھ ہنر تو نہ تھے
وائے برسوخستہ گریباناں
کر عجب، گر ہو ایک لمحہ ء عیش
حاصلِ عمرِ لمحہ مہماناں
نہ گئے تا حریمِ رنگ کبھی
خون روتے رہے تن آساناں
وصل تو کیا ، نہیں نصیب ہمیں
اب تمہارا فراق تک جاناں

شکل بھی اک رنگ کی ہو، رنگ کی شب، ہم نفسو
شوق کا وہ رنگ بدن آئے گا کب، ہم نفسو
جب وہ دل و جانِ ادا ہو گا یہاں نشہ فزا
میری ادائیں بھی ذرا دیکھیو تب، ہم نفسو
تم سے ہو وہ عذر کناں، مجھ سے ہو وہ شکوا کناں
اور میں خود مست رہوں، بات ہے جب، ہم نفسو
شعلہ لبی سے ہے سخن، معنی ِ بالائے سخن
اور سخن بھی سوز ہے شعلہءِ لب، ہم نفسو
آج ہے سوچو تو ذرا، کس کی یہاں منتظری
رقصِ طرب ہم نفسو، شورِ طرب ہم نفسو
اُس کو مری دید کا اک طور کہو، کچھ بھی کہو
کیا کہوں میں، کیسے کہوں، ہے وہ عجب، ہم نفسو
نیم شبی کی ہے فضا، ہم بھی ابھی ہوش میں ہیں
اس کو جو آنا ہے تو پھر آئے بھی اب، ہم نفسو
اپنے سے ہر پل ہیں پرے ، ہم ہیں کہاں اپنے وَرے
کیسی تمنا نفسی، کس کی طلب، ہم نفسو

دلِ جان! وہ آ پہنچا، درہم شکنِ دِلہا
درہم شکنِ دِلہا برہم زنِ محفلہا
یہ نغمہ سماعت کر اے مطربِ کج نغمہ
ہے نعرئہ یا قاتل در حلقہ ءِ بسملہا
ہے شام سے بے قابو وہ حجر گیاں آشوب
لو آ ہی گیا کافر اے مجمعِ غافلہا
گردابِ عبث میں ہم اس موج پہ مائل ہیں
جو موج کہ یاراں ہے دور افگن ِ ساحلہا
ہم نادرہ جویاں کو وہ راہ خوش آئی ہے
جو آبلہ پرور ہے بے مرہمِ منزلہا
ہم اس کے ہیں اے یاراں اس کے ہیں جو ٹھیرا ہے
آشوب گرِ جانہا دیوانہ گرِ دِلہا
مجنوں پسِ مجنوں ہے بے شورِ فغاں اے وا
محمل پسِ محمل ہے ، بے لیلیِ محملہا

بھٹکتا پھر رہا ہوں جستجو بن
سراپا آرزو ہوں آرزو بن
کوئی اس شہر کو تاراج کر دے
ہوئی ہے میری وحشت ہا و ہو بن
یہ سب معجز نمائی کی ہوس ہے
رفوگر آئے ہیں تار رفو بن
معاش بے دلاں پوچھو نہ یارو
نمو پاتے رہے رزق نمو بن
گزار اے شوق اب خلوت کی راتیں
گزارش بن گلہ بن گفتگو بن

ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے
رنگ موسم ہے اور بادِ صبا
شہر کوچوں میں خاک اڑاتی ہے
فرش پر کاغذ اُڑتے پھرتے ہیں
میز پر گرد جمتی جاتی ہے
سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے
میں بھی اذنِ نوا گری چاہوں
بے دلی بھی تو لب ہلاتی ہے
سو گئے پیڑ جاگ اٹھی خوشبو
زندگی خواب کیوں دکھاتی ہے
اس سراپا وفا کی فرقت میں
خواہشِ غیر کیوں ستاتی ہے
آپ اپنے سے ہم سخن رہنا
ہم نشیں سانس پھول جاتی ہے
کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

کہنا ہی کیا کہ شوخ کے رخسار سرخ ہیں
جب حرفِ شوخ سے لبِ گفتار سرخ ہیں
ناداری ِ  نگاہ  ہے  اور  زرد  منظری
حسرت یہ رنگ کی ہے جو نادار سرخ ہیں
اب  اس  متاعِ  رنگ  کا اندازہ کیجیے
شوقِ طلب سے جس کے خریدار سرخ ہیں
ہے بندوبستِ لطفِ مغاں ، رنگ کھیلیے
میخانہ سرخ ہے ، مے و میخوار سرخ ہیں
جا بھی فقیہِ سبز قدم ، اب یہاں سے جا
میں تیری بات پی گیا پر یار سرخ ہیں
طغیانِ رنگ دیکھیے اس لالہ رنگ کا
پیش از ورود ، کوچہ و بازار سرخ ہیں
بسمل ہیں جوشِ مستی ء حالت میں سینہ کوب
وہ رقص میں ہے اور در و دیوار سرخ ہیں

یہ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے میعادِ ستم
جز حریفانِ ستم کس کو پکارا جائے
وقت نے ایک ہی نکتہ تو کیا ہے تعلیم
حاکمِ وقت کو مسند سے اتارا جائے

خوش گُزَرانِ شہرِ غم، خوش گُزَراں گزر گئے
زمزمہ خواں گزر گئے، رقص کُناں گزر گئے
وادیِ غم کے خوش خِرام، خوش نفَسانِ تلخ جام
نغمہ زناں، نوا زناں، نعرہ زناں گزر گئے
سوختگاں کا ذکر کیا، بس یہ سمجھ کہ وہ گروہ
صرصرِ بے اماں کے ساتھ دست فِشاں گزر گئے
زہر بہ جام ریختہ ، زخم بہ کام بیختہ
عشرتیانِ رزقِ غم نوش چکاں گزر گئے
تیری وفا کے باوجود، تجھ کو نہ پا کے بدگماں
کتنے یقیں بچھڑ گئے ، کتنے گماں گزر گئے
مجمعِ مَہ وَشاں سے ہم زخم ِ طَلَب کے باوجود
اپنی کُلہ کَج کیے عِشوہ کُناں گزر گئے
ہم نے خدا کا رد لکھا ، نفی بہ نفی لا بہ لا
ہم ہی خدا گزیدگاں تم پہ گَراں گزر گئے
رات تھی میرے سامنے فردِ حساب ِ ماہ و سال
دن مری سرخوشی کے دن، جانے کہاں گزر گئے
خود نگَرانِ دل زدہ، دل زدَگانِ خود نِگَر
کوچۂ اِلتفات سے خود نِگَراں گزر گئے
اب یہی طے ہُوا کہ ہم تجھ سے قریب تر نہیں
آج ترے تکلّفات دل پہ گَراں گزر گئے
کیا وہ بِساط اُلَٹ گئی؟ ہاں وہ بِساط اُلَٹ گئی
کیا وہ جواں گزر گئے؟ ہاں وہ جواں گزر گئے

ہے بکھرنے کو یہ محفلِ رنگ و بو ،تم کہاں جاؤ گے، ہم کہاں جائیں گے
ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
ہر متاعِ نفس نذرِ آہنگ کی ہم کو یاراں ہوس تھی بہت رنگ کی
گل زمیں سے ابلنے کو ہے اب لہو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
اولِ شب کا مہتاب بھی جا چکا صحنِ مے خانہ سے اب افق میں کہیں
آخرِ شب ہے، خالی ہیں جام و سبو ،تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
کوئی حاصل نہ تھا آرزو کا مگر، سانحہ یہ ہے اب آرزو بھی نہیں
وقت کی اس مسافت میں بے آرزو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
کس قدر دور سے لوٹ کر آئے ہیں، یوں کہو عمر برباد کر آئے ہیں
تھا سراب اپنا سرمایۂ جستجو ،تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
اک جنوں تھا کہ آباد ہو شہرِ جاں اور آباد جب شہرِ جاں ہو گیا
ہیں یہ سرگوشیاں در بہ در، کو بہ کو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
دشت میں رقصِ شوقِ بہار اب کہاں، بادِ پیمائی دیوانہ وار اب کہاں
بس گزرنے کو ہے موسمِ ہاؤ ہو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
ہم ہیں رسوا کنِ دلی و لکھنؤ ، اپنی کیا زندگی، اپنی کیا آبرو
میرؔ دلی سے نکلے، گئے لکھنؤ ، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے

ہم رہے پَر نہیں رہے آباد
یاد کے گھر نہیں رہے آباد
کتنی آنکھیں ہوئیں ہلاکِ نظر
کتنے منظر نہیں رہے آباد
ہم کہ اے دل سخن تھے سر تا پا
ہم لبوں پر نہیں رہے آباد
شہرِ دل میں عجب محلے تھے
ان میں اکثر نہیں رہے آباد
جانے کیا واقعہ ہوا کیوں لوگ
اپنے اندر نہیں رہے آباد

رو بہ زوال ہو گئی مستیِ حال شہر میں
اب کہیں اوج پر نہیں تیرا خیال شہر میں
یہ جو کراہتے ہوئے لوٹ رہے ہیں شہر سے
خوب دِکھا کے آئے ہیں اپنا کمال شہر میں
شہرِ وفا میں ہر طرف سود و زیاں کا ہے شمار
لائیں گے اب کہاں سے ہم کوئی مثال شہر میں
حالتِ گفتگو نہیں ، عشرتِ آرزو نہیں
کتنی اُداس آئی ہے شامِ وصال شہر میں
خاک نشیں ترے تمام خانہ نشین ہو گئے
چار طرف ہے اُڑا رہی گردِ ملال شہر میں

کیا ہوئے آشفتہ کاراں کیا ہوئے
یادِ یاراں یار ، یاراں کیا ہوئے
اب تو اپنوں میں سے کوئی بھی نہیں
وہ پریشاں روزگاراں کیا ہوئے
سو رہا ہے شام ہی سے شہرِ دل
شہر کے شب زندہ داراں کیا ہوئے
اس کی چشمِ نیم وا سے پوچھیو
وہ ترے مژگاں شماراں کیا ہوئے
اے بہارِ انتظارِ فصلِ گل
وہ گریباں تار تاراں کیا ہوئے
کیا ہوئے صورت نگاراں خواب کے
خواب کے صورت نگاراں کیا ہوئے
یاد اس کی ہو گئی ہے بے اماں
یاد کے بے یادگاراں کیا ہوئے

کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے
یہ تو آشوب ناک صورت ہے
انجمن میں یہ میری خاموشی
بُردباری نہیں ہے وحشت ہے
تجھ سے یہ گاہ گاہ کا شکوہ
جب تلک ہے بسا غنیمت ہے
خواہشیں دل کا ساتھ چھوڑ گئیں
یہ اذیت بڑی اذیت ہے
لوگ مصروف جانتے ہیں مجھے
یاں میرا غم ہی میری فُرصت ہے
سنگ پیرائے تبسم میں
اس تکلف کی کیا ضرورت ہے
ہم نے دیکھا تو ہم نے یہ دیکھا
جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے
وار کرنے کو جانثار آئیں
یہ تو ایثار ہے عنایت ہے
گرم جوشی اور اس قدر، کیا بات
کیا تمہیں مجھ سے کچھ شکایت ہے
اب نکل آؤ اپنے اندر سے
گھر میں سامان کی ضرورت ہے
آج کا دن بھی عیش سے گزرا
سر سے پا تک بدن سلامت ہے

نہ ہوا نصیب قرارِ جاں ہوسِ قرار بھی اب نہیں
ترا انتظار بہت کیا ، ترا انتظار بھی اب نہیں
تجھے کیا خبر مہ و سال نے ہمیں کیسے زخم دیے یہاں
تری یادگار تھی اک خلش تری یادگار بھی اب نہیں
نہ گلے رہے نہ گماں رہے نہ گزارشیں ہیں نہ گفتگو
وہ نشاط وعدۂ وصل کیا ہمیں اعتبار بھی اب نہیں
رہے نام رشتۂ رفتگاں نہ شکایتیں ہیں نہ شوخیاں
کوئی عذر خواہ تو اب کہاں کوئی عذر دار بھی اب نہیں
کسے نذر دیں دل و جاں بہم کہ نہیں وہ کاکلِ خم بہ خم
کسے ہر نفس کا حساب دیں کہ شمیمِ یار بھی اب نہیں
وہ ہجومِ دل زدگاں کہ تھا تجھے مژدہ ہو کہ بکھر گیا
ترے آستانے کی خیر ہو سرِ رہ غبار بھی اب نہیں
وہ جو اپنی جاں سے گزر گئے انہیں کیا خبر ہے کہ شہر میں
کسی جاں نثار کا ذکر کیا کوئی سوگوار بھی اب نہیں
نہیں اب تو اہلِ جنوں میں بھی وہ جو شوق شہر میں عام تھا
وہ جو رنگ تھا کبھی کو بہ کو سرِ کوئے یار بھی اب نہیں

زرد ہوائیں ، زرد آوازیں، زرد سرائے شامِ خزاں
زرد اداسی کی وحشت ہے اور فضائے شامِ خزاں
شیشے کے دیوار و در ہیں اور پاسِ آداب کی شام
میں ہوں میری بیزاری ہے اور صحرائے شامِ خزاں
سورج پیڑوں پار جھکا ہے شاخوں میں لالی پھوٹی
مہکے ہیں پھر اک گم گشتہ رنگ کے سائے شامِ خزاں
پیلے پتوں کی سمتوں میں ناچ اُٹھے ہیں سبز ملال
اب تک بے احوال نہیں ہے موجِ ہوائے شامِ خزاں
تنہائی کا اک جنگل ہے سناٹا ہے اور ہوا
پیڑوں کے پیلے پتے ہیں نغمہ سرائے شامِ خزاں

ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
بے اماں تھے اماں کے تھے ہی نہیں
ہم کہ ہیں تیری داستاں یکسر
ہم تری داستاں کے تھے ہی نہیں
ان کو آندھی میں ہی بکھرنا تھا
بال و پر آشیاں کے تھے ہی نہیں
اب ہمارا مکان کس کا ہے
ہم تو اپنے مکاں کے تھے ہی نہیں
ہو تری خاکِ آستاں پہ سلام
ہم ترے آستاں کے تھے ہی نہیں
ہم نے رنجش میں یہ نہیں سوچا
کچھ سخن تو زباں کے تھے ہی نہیں
دل نے ڈالا تھا درمیاں جن کو
لوگ وہ درمیاں کے تھے ہی نہیں
اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

کرتا ہے ہا ہُو مجھ میں
کون ہے بے قابو مجھ میں
یادیں ہیں یا بلوا ہے
چلتے ہیں چاقو مجھ میں
لے ڈوبی جو ناؤ مجھے
تھا اس کا چپو مجھ میں
جانے کن کے چہرے ہیں
بے چشم و اَبرو مجھ میں
ہیں یہ کس کے تیغ و عَلم
بے دست و بازو مجھ میں
جانے کس کی آنکھوں سے
بہتے ہیں آنسو مجھ میں
ڈھونڈتی ہے اک آہو کو
اک مادہ آہو مجھ میں
آدم ، ابلیس اور خدا
کوئی نہیں یکسو مجھ میں
میں تو ایک جہنم ہوں
کیوں رہتا ہے تو مجھ میں
جونؔ کہیں موجود نہیں
میرا ہم پہلو مجھ میں
اب بھی بہاراں مژدہ ہے
ایک خزاں خوشبو مجھ میں

بادِ بہاری کے چلتے ہی لہری پاگل چل نکلے
جانا تھا کس سمت کو جانے بس بے اٹکل چل نکلے
جو ہلچل مارے تھے ان کو دوش نہ دو، نردوش ہیں وہ
دوش ہمیں دو، اس بستی سے ہم بے ہلچل چل نکلے
پاسِ ادب کی حد ہوتی ہے ہم پہلے ہی کہتے تھے
کل تک جن کو پاس تھا ان کا وہ ان سے کل چل نکلے
کچھ مت پوچھو حیف آتا ہے وحشت کے بے حالوں پر
وحشت جب پُر حال ہوئی تو چھوڑ کے جنگل چل نکلے
خون بھی اپنا سیر طلب تھا ہم بھی موجی رنگ کے تھے
یوں بھی تھا نزدیک ہی مقتل سوئے مقتل چل نکلے

دو غزلہ
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا
خود کو جانا جدا زمانے سے
آ گیا تھا مرے گمان میں کیا
شام ہی سے دکانِ دید ہے بند
نہیں نقصان تک دکان میں کیا
اے مرے صبح و شام دل کی شفق
تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا
آ رہا ہے مرے گمان میں کیا
دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت
خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا
وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
ہے نسیمِ بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

شام ہوئی ہے یار آئے ہیں یاروں کے ہم راہ چلیں
آج وہاں قوالی ہوگی جونؔ چلو درگاہ چلیں
اپنی گلیاں ، اپنے رمنے ، اپنے جنگل ، اپنی ہوا
چلتے چلتے وجد میں آئیں راہوں میں بے راہ چلیں
جانے بستی میں جنگل ہو یا جنگل میں بستی ہو
ہے کیسی کچھ نا آگاہی آؤ چلو ناگاہ چلیں
کوچ اپنا اس شہر طرف ہے نامی ہم جس شہر کے ہیں
کپڑے پھاڑیں خاک بہ سر ہوں اور بہ عز و جاہ چلیں
راہ میں اس کی چلنا ہے تو عیش کرا دیں قدموں کو
چلتے جائیں ، چلتے جائیں ، یعنی خاطر خواہ چلیں

میں تو سودا لیے پھرا سَر میں
خاک اُڑتی رہی مرے گھر میں
نہ ہوا تو مجھے نصیب تو کیا
میں ہی اپنے نہ تھا مقدر میں
لے کے سمتوں کی ایک بے سمتی
گُم ہوا ہوں میں اپنے پیکر میں
ڈوبیے اِس نگہ کے ساتھ کہاں
دھول ہی دھول ہے سمندر میں
چاہیے کچھ ہنر کا اس کو خیال
ہے جو بے منظری سی منظر میں
مانگ لے کوئی یاد پتھر سے
وقت پتھرا گیا ہے پتھر میں
کیسے پہنچے غنیم تک یہ خبر
گھِر گیا ہوں میں اپنے لشکر میں
ایک دیوار گِر پڑی دل پر
ایک دیوار کھنچ گئی گھر میں

سال ہا سال اور اک لمحہ
کوئی بھی تو نہ ان میں بل آیا
خود ہی اک در پہ میں نے دستک دی
خود ہی لڑکا سا میں نکل آیا

وہ کارگاہ ہوں جو عجب نادرست ہے
جو کچھ یہاں درست ہے بے جا درست ہے
ہر چند خود وجود میں ہیں سو سخن مگر
موجود مستیِ دل و دیدہ درست ہے
وہ جسم موج خیز ، پیالہ وہ ناف کا
گِرداب ، درمیانہءِ دریا درست ہے
جو کچھ ہے بیچ میں ہے، اِدھر ہے نہ کچھ اُدھر
ہم نے جو کام بیچ میں چھوڑا درست ہے
گامِ سفر نے خوار کیا پائے سیر کو
منزل نہ درمیاں ہو تو رَستہ درست ہے
آتا بھی ہے کوئی تو میں کہتا ہوں تُو نہیں
اب تُو مرے خیال میں تنہا درست ہے
میں کیوں بھلا قضا و قدر سے بُرا بنوں
ہے جو بھی انتظام خدایا درست ہے
ہے نیم منکروں کی معاش اِس سوال پر
جب کچھ نہیں درست تو پھر کیا درست ہے؟

دو غزلہ
آج لبِ گہر فشاں آپ نے وا نہیں کیا
تذکرۂ خجستۂ آب و ہوا نہیں کیا
کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا
جانے تری نہیں کے ساتھ کتنے ہی جبر تھے کہ تھے
میں نے ترے لحاظ میں تیرا کہا نہیں کیا
مجھ کو یہ ہوش ہی نہ تھا تُو مرے بازوؤں میں ہے
یعنی تجھے ابھی تلک میں نے رہا نہیں کیا
تُو بھی کسی کے باب میں عہدِ شکن ہو غالباً
میں نے بھی ایک شخص کا قرض ادا نہیں کیا
ہاں وہ نگاہِ ناز بھی اب نہیں ماجرا طلب
ہم نے بھی اب کی فصل میں شور بپا نہیں کیا

دل نے وفا کے نام پر کارِ وفا نہیں کیا
خود کو ہلاک کر لیا خود کو فدا نہیں کیا
خیرہ سرانِ شوق کا کوئی نہیں ہے جنبہ دار
شہر میں اس گروہ نے کس کو خفا نہیں کیا
جو بھی ہو تم پہ معترض اس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں ، آپ نے کیا نہیں کیا
نسبتِ علم ہے بہت حاکمِ وقت کو عزیز
اس نے تو کارِ جہل بھی بے علما نہیں کیا
جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خدا دیا قرار
ہم نے نہیں کیا وہ کام ، ہاں بہ خدا نہیں کیا

دو غزلہ
گذر آیا میں چل کے خود پر سے
اک بلا تو ٹلی مرے سر سے
مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے
مجھ سے اب لوگ کم ہی ملتے ہیں
یوں بھی میں ہٹ گیا ہوں منظر سے
میں خمِ کوچہ ءِ جدائی تھا
سب گزرتے گئے برابر سے
حجرہ ء صد بلا ہے باطنِ ذات
خود کو تو کھینچیو نہ باہر سے
کیا سحر ہوگئی دلِ بے خواب
اک دھواں اُٹھ رہا ہے بستر سے

نکل آیا میں اپنے اندر سے
اب کوئی ڈر نہیں ہے باہر سے
صبح دفتر گیا تھا کیوں انسان
اب یہ کیوں آ رہا ہے دفتر سے
میرے اندر کجی بلا کی ہے
کیا مجھے کھینچتا ہے مسطر سے
رن کو جاتا ہوں پر نہیں معلوم
آخرش ہوں میں کس کے لشکر سے
اہلِ مجلس تو سوئیں گے تا دیر
آپ کب اتریے گا منبر سے
نہیں بدتر کہ بدترین ہوں میں
ہوں خجل اپنے نصف بہتر سے
بول کر داد کے فقط دو بول
خون تھکوا لو شعبدہ گر سے
اب جو ڈر ہے مجھے تو اس کا ہے
اندر آجائیں گے وہ اندر سے

وہ جو تھے رنگ میں سرشار کہاں ہیں جانے
زخم دارانِ رہِ دار کہاں ہیں جانے
ہر طرف شہرِ غمِ یار میں سناٹا ہے
شورِ مستانِ غمِ یار کہاں ہیں جانے
گھر سے جاتے ہیں خریدار پلٹ آتے ہیں
جنسِ کمیاب کے بیمار کہاں ہیں جانے
اے مسیحا! ترے دکھ سے ہے سوا دکھ کس کا
کس سے پوچھوں ترے بیمار کہاں ہیں جانے
میرا کیا ، اپنا طرفدار نہیں میں خود بھی
وہ جو ہے اس کے طرفدار کہاں ہیں جانے
اپنے زخموں کو نہیں کوئی کھرچنے والا
کارِ جاناں ، ترے بے کار کہاں ہیں جانے
قافلوں کا ہے سرِ دشت ِ طلب کب سے پڑاؤ
ایلیاؔ! قافلہ سالار کہاں ہیں جانے

ہو کا عالم ہے یہاں نالہ گروں کے ہوتے
شہر خاموش ہے شوریدہ سروں کے ہوتے
کیوں شکستہ ہے ترا رنگ متاعِ صد رنگ
اور پھر اپنے ہی خونیں جگروں کے ہوتے
کارِ فریاد و فغاں کس لیے موقوف ہوا
تیرے کوچے میں ترے با ہنروں کے ہوتے
کیا دِوانوں نے ترے کوچ ہے بستی سے کیا
ورنہ سنسان ہوں راہیں نِگھروں کے ہوتے
جز سزا اور ہو شاید کوئی مقصود ان کا
جا کے زنداں میں جو رہتے ہیں گھروں کے ہوتے
شہر کا کام ہوا فرطِ حفاظت سے تمام
اور چھلنی ہوئے سینے سپروں کے ہوتے
اپنے سودا زدگاں سے یہ کہا ہے اس نے
چل کے اب آئیو پیروں پہ سروں کے ہوتے
اب جو رشتوں میں بندھا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر
کب پرند اُڑ نہیں پاتے ہیں پروں کے ہوتے

شہر کا کیا حال ہے پوچھو خبر
آسماں کیوں لال ہے پوچھو خبر
اب کے سینہ اس بدن افگار کا
کس بدن کی ڈھال ہے پوچھو خبر
کیوں ہے آخر اس گلی میں اژدہام
کون پُر احوال ہے پوچھو خبر
راہ میں اس شہسوارِ ناز کی
کس کا دل پامال ہے پوچھو خبر
یہ جو سناٹا ہے سارے شہر میں
کیا نیا جنجال ہے پوچھو خبر

ہمارے زخم ِ تمنا پرانے ہو گئے ہیں
کہ اس گلی میں گئے اب زمانے ہو گئے ہیں
تم اپنے چاہنے والوں کی بات مت سنیو
تمہارے چاہنے والے دِوانے ہو گئے ہیں
وہ زلف دھوپ میں فرقت کی آئی ہے جب یاد
تو بادل آئے ہیں اور شامیانے ہو گئے ہیں
جو اپنے طور سے ہم نے کبھی گزارے تھے
وہ صبح و شام تو جیسے فسانے ہو گئے ہیں
عجب مہک تھی مرے گل ترے شبستاں کی
سو بلبلوں کے وہاں آشیانے ہو گئے ہیں
ہمارے بعد جو آئیں انہیں مبارک ہو
جہاں تھے کنج وہاں کارخانے ہو گئے ہیں

رنگ لایا ہے عجب رنجِ خمار آخرِ شب
حالت آئی ہے ہم آغوش ہیں یار آخرِ شب
حسرتِ رنگ بھی ہے خواہشِ نیرنگ بھی ہے
دیدنی فصلِ گماں کی ہے بہار آخرِ شب
جونہی بوجھل ہوئیں پلکیں تو پڑی مستوں میں
اُس کی دزدیدہ نگاہوں کی پکار آخرِ شب
صبح ہو گی مگر اس خواب سے کچھ کم ہو گی
عجب اک خواب ہے خوابوں کا دیار آخرِ شب
جا کے دینا ہے سحر دم ترے کوچے میں حساب
کر رہے ہیں ترے رند اپنا شمار آخرِ شب
کیا ہے بکھری ہے جو محفل کہ ہیں دل پُر محفل
رقص برپا ہے سرِ راہ گزر آخرِ شب
ہر پلک کار گزاری میں نگہ کی ہو بسر
آخرِ شب ہے سو آنکھوں میں گزار آخرِ شب

اپنے جنوں کا پھر سروساماں ہے خواب خواب
ان راتوں ایک زلف پریشاں ہے خواب خواب
پھیلی ہوئی ہے یاد کی گلیوں میں چاندنی
اک خواب اک خیال کا مہماں ہے خواب خواب
راہیں مہک رہی ہیں مری لغزشوں کے ساتھ
میں خواب خواب، شہرِ غزالاں ہے خواب خواب
دل ، دشت کے سفر پہ چلا ہے دیار سے
ہنگامہ ءِ امیدِ بہاراں ہے خواب خواب
آنکھوں میں ہیں سجی ہوئی شکووں کی خلوتیں
ہم اُس سے اور وہ ہم سے گریزاں ہے خواب خواب
ہیں کھیلنے کو رنگ نیا ، زخم ہائے دل
جاناں سے تازہ وعدہ و پیماں ہے خواب خواب
دل میں کھلی ہوئی ہیں دکانیں خیال کی
تازہ حسابِ دست و گریباں ہے خواب خواب
اک سبز سبز جھیل میں کشتی ہے سرخ سرخ
اک جسم خواب خواب ہے اک جاں ہے خواب خواب
بستی میں ہے فراق کی موسم وصال کا
دشوار جو بہت ہے وہ آساں ہے خواب خواب
آغازِ شاعری 
سے
۱۹۵۷ء تک

آسائشِ امروز
اس سے پہلے کہ گزر جائیں یہ لمحاتِ نشاط
اس سے پہلے کہ یہ کلیاں بھی فسردہ ہوجائیں
اس سے پہلے کہ بدل جائے مزاجِ احساس
اس سے پہلے کہ یہ حالات بھی مردہ ہوجائیں
اس سے پہلے کہ بدل جائے نظر کا انداز
اس سے پہلے کہ نظاروں کو نظر لگ جائے
اس سے پہلے کہ لباسِ شبِ خاموش ہو چاک
اس سے پہلے کہ ستاروں کو نظر لگ جائے
جذبۂِ شوق کو اظہار پہ آمادہ کرو
لبِ خاموش کو گفتار پہ آمادہ کرو
اور اگر تم کو محبت ہی نہیں ہے مجھ سے
تو مرے بُت کدئہ وہم کو ویراں کر دو
غلط انداز اداؤں کو ابھی سمجھا لو
غلط اندیش وفاؤں کو پشیماں کر دو
حُسن کا عشق نگہباں، مگر اے جانِ جہاں
وقت سے، شیوئہ لمحات سے دل ہے لرزاں
کون جانے کہ سرِ شام جلیں کیسے چراغ
کس کو معلوم ، دمِ صبح جوانی ہو کہاں
چاند، یہ رات کے سینے کا دہکتا ہوا داغ
چاند، یہ کتنے ہی مایوس اندھیروں کا چراغ
اِس نے احرام کی تہذیب کو مرتے دیکھا
بے نیازانہ زمانے کو گزرتے دیکھا
سرد مہری بھی زمانے کی ہے اس کو معلوم
اِس نے تاریخ کے ہر زخم کو بھرتے دیکھا
اِس نے بابل کے طرب خیز چمن زادوں میں
رنگِ تاریخ نکھرتے ہوئے دیکھا ہو گا
یہ اجنتا و ایلورا کے سیہ خانوں پر
اُن کی شب ہائے درخشاں میں بھی چمکا ہوگا
وقت گزرا ہے ، گزرتا ہے ، گزر جائے گا
سازِ امروز کا ہر تار بکھر جائے گا
اے متاعِ دل و جاں! رات گزر جائے گی
وقت اِک بات ہے اور بات گزر جائے گی
حُسن اور عشق کے پابند نہیں ہیں یہ لمحات
فرصتِ شوق و عنایات گزر جائے گی
سازِ ہستی ہمہ تن سوز ہے اور کچھ بھی نہیں
ہر سحر، شامِ غم اندوز ہے اور کچھ بھی نہیں
صنعت و فلسفہ و فن و تخیّل کا مآل
شاید آسایشِ اِمروز ہے اور کچھ بھی نہیں

دو آوازیں
پہلی آواز
ہمارے سرکار کہہ رہے تھے کہ یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں
کہ فرقِ اَفلاس و زر مٹا کر نظامِ فطرت سے لڑ رہے ہیں
نظامِ دولت خدا کی نعمت، خدا کی نعمت سے لڑ رہے ہیں
ہر اِک روایت سے لڑ رہے ہیں ہر اِک صداقت سے لڑ رہے ہیں
مشیّتِ حق سے ہو کے غافل خود اپنی قسمت سے لڑ رہے ہیں
یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں؟
ہمارے سرکار کہہ رہے تھے کہ اگر سبھی مالدار ہوتے
تو پھر ذلیل و حقیر پیشے ہر اِیک کو ناگوار ہوتے
نہ کارخانوں میں کام ہوتا نہ لوگ مصروفِ کار ہوتے
اُنھی سے پوچھو کہ پھر زمانے میں کس طرح کاروبار ہوتے
اگر سبھی مالدار ہوتے
تو مسجد و منبر و کلیسا میں کون صنعت گری دکھاتا
ہمارے راجوں کی اور شاہوں کی عظمتیں کون پھر جگاتا
حسین تاج اور جلیل اہرام ڈھال کر کون داد پاتا
ہماری تاریخ کو فروغِ ہُنر سے پھر کون جگمگاتا
ہمارے سرکار کہہ رہے تھے ، یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں؟
دوسری آواز
تم اپنے سرکار سے یہ کہنا کہ یہ لوگ پاگل نہیں ہوئے ہیں
یہ لوگ سب کچھ سمجھ رہے ہیں ،یہ لوگ سب کچھ سمجھ چکے ہیں
یہ زرد رُو نوجوان فنکار جن کی رگ رگ میں ولولے ہیں
یہ ناتواں و نحیف و ناچار جن کے قدموں پہ زلزلے ہیں
یہ جن کو تم نے کچل دیا ہے، یہ جن میں جینے کے حوصلے ہیں
دیا ہے فاقوں نے جنم جن کو، جو بھوک کی گود میں پلے ہیں
یہ لوگ پاگل نہیں ہوئے ہیں
نظامِ فطرت؟
نظامِ فطرت ہوائے صحنِ چمن سے پوچھو جو پوچھنا ہے
مشامِ دیر و دیار و دشت و دمن سے پوچھو جو پوچھنا ہے
نظامِ فطرت فضاؤں کی انجمن سے پوچھو جو پوچھنا ہے
نظامِ فطرت کو قلزمِ موجزن سے پوچھو جو پوچھنا ہے
کہ چاند سورج کی جگمگاہٹ زمیں زمیں ہے، وطن وطن ہے
کلی کلی کی کنواری خوشبو ، روش روش ہے ، چمن چمن ہے
نظامِ فطرت کا بحرِ موّاج پست و بالا پہ موجزن ہے
ہوائیں کب اس کو دیکھتی ہیں کہ یہ ہے صحرا، وہ انجمن ہے
وہ پیشے جن سے عروسِ تہذیب کو ملے لباس و زیور
ہے جن سے دوشیزئہ تمدّن چمن بدامن بہار در بر
ہے جن کا احساں تمھاری اصلوں تمھاری نسلوں پہ اور تم پر
اُنھی کو تم گالیاں بھی دیتے ہو اب ذلیل و حقیر کہہ کر
سنو کہ فردوسیِ زمانہ پرکھ چکا ظرفِ غزنوی کو
جو فکر و فن کو ذلیل کر کے عزیز رکھتا ہے اشرفی کو
تقدّسِ بُت شِکن میں دیکھا تکّلفِ ذوقِ بُت گری کو
اب ایک ہجوِ جدید لکھنی ہےعصرِ حاضر کی شاعری کو
تم اپنے سرکار سے یہ پوچھو کہ فکر و فن کی سزا یہی ہے
ہو اُن کا دل خوں کہ جن کے دم سے یہ تازگی ہے یہ دلکشی ہے
وہ جن کے خوں سے نقوش و اشکال کو درخشندگی ملی ہے
وہ جن کے ہاتھوں کی کھردراہٹ سے کشتِ تارِ حریر اُگی ہے
تم اپنے سرکار سے یہ کہنا ، نظامِ زر کے وظیفہ خوارو!
نظامِ کہنہ کی ہڈیوں کے مجاورو اور فروش کارو!
تمھاری خواہش کے برخلاف اِک نیا تمّدن طلوع ہوگا
نیا فسانہ ، نیا ترانہ ، نیا زمانہ شروع ہوگا
جمود و جنبش کی رزم گاہوں میں ساعتِ جنگ آچکی ہے
سماج کے استخواں فروشوں سے زندگی تنگ آچکی ہے
تمھارے سرکار کہہ رہے تھے ، یہ لوگ پاگل نہیں تو کیا ہیں ؟
یہ لوگ جمہور کی صدا ہیں، یہ لوگ دنیا کے رہنما ہیں
یہ لوگ پاگل نہیں ہوئے ہیں

مفروضہ
آرزو کے کنول کھلے ہی نہ تھے
فرض کر لو کہ ہم ملے ہی نہ تھے
کسی پہچان کی نظر سے یہاں
اصل چہرے کہاں گزرتے ہیں
زندگی میں تمام چیزوں کو
ہم فقط فرض ہی تو کرتے ہیں
نئی منزل کی راہ ڈھونڈو تم
میرے غم سے پناہ ڈھونڈو تم
بھول جاؤ تمام رشتوں کو
چاک کر دو مرے نوشتوں کو
گلِ حسرت کھلا نہ سمجھو تم
مجھ کو اپنا صلہ نہ سمجھو تم
ہر نفس جاں کنی ہے جینے میں
اک جہنم ہے میرے سینے میں
یہ میرے کربِ ذات کے آثار
شوقِ تعمیر کے خرابے ہیں
ان خرابوں میں جاں کنی نے مری
خون تھوکا ہے زخم چابے ہیں
وقت کے جسم کی خراش ہوں میں
اپنے اندر سے پاش پاش ہوں میں
ذات ہے اعتبارِ ذات نہیں
اب تو میں خود بھی اپنے ساتھ نہیں

عید زنداں
اہلِ زنداں عیدِ زنداں آئی ہے
نکہتِ صحنِ گلستاں آئی ہے
مژدہ باوائے حسرتِ شب زندہ دار
آرزوئے صبح خیزاں آئی ہے
روحِ صبح و شام باصد اشتیاق
پائے کوباں دست افشاں آئی ہے
زندگی کی دُور اُفتادہ خوشی
خندہ برلب اشک افشاں آئی ہے
اے خس و خاشاکِ راہِ نازکاں
ساعتِ تقریبِ مژگاں آئی ہے
جانبِ سِقط اللویٰ کے ساتھیو
منزلِ جمّازہ راناں آئی ہے
اے سمیرا، اے عنیزہ، اے سُعاد
نازشِ مژگاں درازاں آئی ہے
اے عزیزانِ قبیلہ مژدہ باد
قرۃ العینِ عزیزاں آئی ہے
دستہ دستہ داغ ہائے دل سجیں
خوش نگاہِ خوش نگاہاں آئی ہے
آج تو خوں سے جلانے ہیں چراغ
آج تو شامِ چراغاں آئی ہے
نعرہ ہا بانالہ ہا فریاد ہا!
جانِ نادرماں پذیراں آئی ہے
ساز ہا، آواز ہا، شہناز ہا!
مطربِ جاں، جانِ جاناں آئی ہے
تاجدارِ نجدِ خوباں فارہہ
تاجدارِ نجدِ خوباں آئی ہے
کج کلاہِ کشورِ جاں فارہہ
کج کلاہِ کشورِ جاں آئی ہے
اے دلِ بربط نوازِ آرزو
نوبتِ تارِ رگِ جاں آئی ہے
کتنی سادہ دل ہے میری زندگی
مجھ سے محجوب و پشیماں آئی ہے
جون آخر کیا کرو گے نذرِ شوق؟
ارجمندِ ارجمنداں آئی ہے
پیش کر دے اے دلِ اندوہ گیں
درد، جو اب قابلِ درماں نہیں
تشنگی ، جو زہر پی کر رہ گئی
خوش دلی، جو آنسوؤں میں بہہ گئی
ارجمندِ ارجمنداں کیا کہوں
زندگی ہے کس قدر زار و زبوں
ہے زمانہ میرے حق میں بے نوید
میں ہوں اپنی آرزوؤں کا شہید
آرزوئیں نارسی کا جبر ہیں
زندگی ہیں ، زندگی کا جبر ہیں
جبر جوئے شیر بھی شیریں بھی ہے
حُسن بھی ہے حیلہِ سنگیں بھی ہے
فن کے حق میں حیلہءِ سنگیں ہے جبر
جوئے شیر و تیشہءِ خونیں ہے جبر
موج خیزِ جبر میں ہم تہ نشیں
اِنتخابِ موج پر قادر نہیں

خواب 
کبھی اک خواب سا دیکھا تھا میں نے
کہ تم میری ہو اور میرے لیے ہو
تمھاری دلکشی میرے لیے ہے
میں جو کچھ ہوں تمھارے ہی لیے ہوں
تمھاری ہر خوشی میرے لیے ہے
وہ راتیں آہ وہ سرمست راتیں
کہ جن کی تشنہ لب سرمستیوں نے
سرورِ تشنگی بخشا تھا مجھ کو
تمھاری والہانہ بے خودی نے
غرورِ دلبری بخشا تھا مجھ کو
تمھارے جسم کی جاں پروری نے
جمالِ سرمدی بخشا تھا مجھ کو
ہماری باہمی انگڑائیوں نے
یقینِ زندگی بخشا تھا مجھ کو
یقینِ جاں فضا ، خوابِ تمّنا
عذابِ روح بن جائے گا اِک دن
کبھی میں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا
یہ ہوگی خواب کی تعبیر یعنی
کہ میں نے خواب دیکھا ہی نہیں تھا
جو میری آرزو کا نقش گر ہے
کبھی وہ دور گزرا ہی نہیں تھا
وہ راتیں خواب ہو کر رہ گئی ہیں
مگر خوابوں میں خوابوں کا تسلسل
عذابِ جاں بھی ہے جاں آفریں بھی
یہ زنجیرِ خیال و خواب و اوہام
فریبِ زندگی بھی ہے یقین بھی
سُلا کر حال کی تاریکیوں میں
مجھے ماضی میں چونکاتے ہیں یہ خواب
مری پلکوں کو بوجھل دیکھتے ہی
سمٹ جاتے ہیں شرماتے ہیں یہ خواب
میں اِن خوابوں سے جب بھی رُوٹھتا ہوں
تو پہروں اَشک برساتے ہیں یہ خواب
مجھے بانہوں کے حلقے میں جکڑ کر
مرے سر کی قسم کھاتے ہیں یہ خواب
مرا آغوش اپنانے کی خاطر
زمانے بھر کو ٹھکراتے ہیں یہ خواب
شفق پر روکتے ہیں اپنا آنچل
اُفق میں جا کے چھپ جاتے ہیں یہ خواب
جہاں کچھ بھی نہیں تنہا خلا ہے
نظر کا سارا سرمایہ خلا ہے

متاع زندگی لوٹا رہا ہوں
میں تیرے نامہ ہائے شوق تجھ کو
بہ صد آزردگی لوٹا رہا ہوں
ترا رازِ دلی ہے ان میں پنہاں
ترا رازِ دلی لوٹا رہا ہوں
تری ”دیوانگی“ کی داستانیں
بہ صد دیوانگی لوٹا رہا ہوں
حیاتِ نا اُمیدی کے سہارے
بہ کربِ جانکنی لوٹا رہا ہوں
مجھے صحت کی تاکیدیں ہیں جن سے
وہ ”احکامِ شہی“ لوٹا رہا ہوں
مجھے تو نے کبھی کیا کچھ لکھا تھا
وہی ” کیا کچھ “ وہی لوٹا رہا ہوں
”مرے شاعر، مرے معبود و مالک“
یہ اعزازت بھی لوٹا رہا ہوں
فقط اک ” کو ہکن“ رہناہے مجھ کو
غرورِ خسروی لوٹا رہا ہوں
یہ خط میری متاعِ زندگی تھے
متاعِ زندگی لوٹا رہا ہوں
غمِ ترکِ محبت آہ یہ غم
میں اپنی ہر خوشی لوٹا رہا ہوں

آزادی
اپنے ہاتھوں اجڑ رہا ہے چمن
دلِ ماشاد و چشمِ ماروشن
بڑھ گئی اور چاک دامانی
جب سے حاصل ہیں رشتہ و سوزن
نہیں ہرگز مآلِ فصلِ بہار
گل کی بے جا ہنسی کا پھیکا پن
اب خزاں کو نہ دے کوئی الزام
جل رہا ہے بہار میں گلشن
نظمِ فطرت یہ کیا قیامت ہے
چاندنی رات اور چاند گہن
ہم نے بخشے چراغ محفل کو
رگِ جاں سے فتیلہ و روغن
اور دونوں ہیں شام سے تاریک
تیرا آنگن ہو یا مرا آنگن
نغمہء حال ہے یہ دل! یا ہے
لبِ ماضی کا دیر رس شیون
دین اور دھرم کی ہو خیر اپنے
یہ برہمن وہ شیخکِ پُر فن
ہم قفس سے رہا ہوئے تو کیا
دل میں آباد ہے قفس کی گھٹن

بنام فارہہ
ساری باتیں بھول جانا فارہہ
تھا وہ سب کچھ اک فسانہ فارہہ
ہاں محبت ایک دھوکا ہی تو تھی
اب کبھی دھوکا نہ کھانا فارہہ
چھیڑ دے گر کوئی میرا تذکرہ
سن کے طنزاً مسکرانا فارہہ
میری جو نظمیں تمہارے نام ہیں
اب انہیں مت گنگنانا فارہہ
تھا فقط روحوں کے نالوں کی شکست
وہ ترنم ، وہ ترانہ فارہہ
بحث کیا کرنا بھلا حالات سے
ہارنا ہے ہار جانا فارہہ
ساز و برگِ عیش کو میری طرح
تم نظر سے مت گرانا فارہہ
ہے شعورِ غم کی اک قیمت مگر
تم یہ قیمت مت چکانا فارہہ
زندگی سے فطرتاً کچھ بد مزاج
زندگی کے ناز اٹھانا فارہہ
پیش کش میں پھول کر لینا قبول
اب ستارے مت منگانا فارہہ
چند ویرانے تصور میں رہیں
جب نئی دنیا بسانا فارہہ
جانبِ عشرِ تگہِ شہرِ بہار
ہو سکے تو مل کے جانا فارہہ
سوچتا ہوں کس قدر تاریک ہے
اب میرا باقی زمانہ فارہہ
سن رہا ہوں منزلِ غربت سے دور
بج رہا ہے شادیانہ فارہہ
موجزن پاتا ہوں میں اک سیلِ رنگ
از قفس تا آشیانہ فارہہ
ہو مبارک رسمِ تقریبِ شباب
بر مرادِ خسروانہ فارہہ
سج کے وہ کیسا لگا ہو گا جو تھا
ایک خوابِ شاعرانہ فارہہ
سوچتا ہوں میں کہ مجھ کو چاہیے
یہ خوشی دل سے منانا فارہہ
کیا ہوا گر زندگی کی راہ میں
ہم نہیں شانہ بشانہ فارہہ
وقت شاید آپ اپنا جبر ہے
اس پہ کیا تہمت لگانا فارہہ
زندگی اک نقشِ بے نقاش ہے
اس پہ کیا انگلی اٹھانا فارہہ
کاش اک قانون ہوتا جو نہیں
زخم اپنے کیا دکھانا فارہہ
کاش کچھ اقدار ہوتیں جو نہیں
پھر بھلا کیا دل جلانا فارہہ
صرف اک جلتی ہوئی ظلمت ہے نور
تاب و تابش پر نہ جانا فارہہ
یہ جو سب کچھ ہے یہ شاید کچھ نہیں
روگ جی کو کیا لگانا فارہہ
سیل ہے بس بیکراں لمحوں کا سیل
غرقِ سیلِ بیکرانہ فارہہ

چشمکِ انجم   
( جشن آزادی کے موقع پر)
حیاتِ نو تری جیبِ اجل دریدہ میں
کیا تھا رشتہء انفاس سے رفو ہم نے
بتا صبیحہ ء محشر خرامِ آزادی
تجھے تلاش کیا تھا نہ کو بہ کو ہم نے
خزاں نصیب ہیں لیکن نگارِ گلشن کو
عطا کیا سر و سامانِ رنگ و بو ہم نے
کبھی مورخِ فصلِ جنوں سے کر معلوم
کیا ہے کتنے مقاتل کو سرخرو ہم نے
امامِ شہر سے پوچھ اس نمازِ خوف کا حال
کیا تھا جس کے لئے خون سے وضو ہم نے
ہو صرف چشمکِ انجم نصیبِ خوش نظری
یونہی تو کی تھی شعاعوں کی جستجو ہم نے
یہی کہو ، ہمیں لب تشنگی ہی راس آئے
پیا ہے زہرِ ملامت کنار جو ہم نے
خود اپنے آپ کو الجھا لیا ، یہی تو کیا
سنوار کر تری زلفوں کو مو بہ مو ہم نے
کیا قبول پلاسِ درشتی ءِ گفتار
بہ نقدِ ریشمِ تہذیبِ گفتگو ہم نے
ہو صرف باغچہء قصرِ اہلِ زر شاداب
اسی غرض سے بہایا تھا کیا لہو ہم نے؟
نگاہ میں کوئی صورت ، بہ جز غبار نہیں
یہ وہ بہار نہیں ہے یہ وہ بہار نہیں

داغ سینہ شب
نویدِ عشرتِ فردا کسے مبارک ہو
خیالِ انجمن آرا کسے مبارک ہے
یہ داغِ سینہءِ شب یہ ہلالِ عیدِ طرب!
دلِ فسردہ ، بتانا کسے مبارک ہو
یہ طنز کوش تجلی ، یہ طعنہ زن جلوہ
کوئی بتائے خدارا کسے مبارک ہو
سوال یہ ہے کہ اس زخم خوردہ گلشن میں
فسونِ خندئہ بے جا کسے مبارک ہو
نگارِ شوق و تمنا ، ترے تمنائی
ہیں نا امید ، تمنا کسے مبارک ہو
بہارِ رقص و تماشا ، ترے تماشائی
تڑپ رہے ہیں تماشا کسے مبارک ہو
کسی کا شیوئہ الطاف کس کو راس آئے
کسی کے عہد کا ایفا کسے مبارک ہو

تعظیم محبت
ہے مجھ پر طعنہ زن خود میرا احساس
تمنا اپنی قیمت کھو رہی ہے
کہوں کیا، ہر پلک اِس بے خبر کی
مری آنکھوں میں کانٹے بو رہی ہے
عرق آلود چہرے کی ہر اک بوند
نہ جانے کتنے خاکے دھو رہی ہے
خوشا یہ طرزِ تعظیم ِ محبت
یہ تعظیم ِ محبت ہو رہی ہے
غمِ فرقت کا شکوا کرنے والی
مری موجودگی میں سو رہی ہے

حسن اتنی بڑی دلیل نہیں
آج بھی تشنگی کی قسمت میں
سمِ قاتل ہے سلسبیل نہیں
سب خدا کے وکیل ہیں لیکن
آدمی کا کوئی وکیل نہیں
ہے کشادہ ازل سے روئے زمیں
حرم و دیر بے فصیل نہیں
زندگی اپنے روگ سے ہے تباہ
اور درماں کی کچھ سبیل نہیں
تم بہت جاذب و جمیل سہی
زندگی جاذب و جمیل نہیں
نہ کرو بحث ہار جاؤ گی
حسن اتنی بڑی دلیل نہیں

وقت
بام اور یہ منظر ِ سرِ شام
ہے کتنا حسین و عبرت انجام
مغرب کا اُفق دہک رہا ہے
دامانِ شفق بھڑک رہا ہے
تنور دھنے ہوئے ہوں جیسے
شعلے سے چنے ہوئے ہوں جیسے
یا آتشِ سرکشی سے جیسے
دولت کی قبائیں جل رہی ہوں
نسلوں پہ عذاب آ رہا ہو
قوموں کی سرائیں جل رہی ہوں
سینوں میں جحیم گل رہے ہوں
ہونٹوں پہ صدائیں جل رہی ہوں
اُترا ہے افق میں تازہ تازہ
خورشید کا بے کفن جنازہ
خاموشیءِ بام بڑھ رہی ہے
تاریکیءِ شام بڑھ رہی ہے
ہر درہ و در دھواں دھواں ہے
پہنائے نظر دھواں دھواں ہے
احساس کے داغ جل اٹھے ہیں
کتنے ہی چراغ جل اٹھے ہیں
جیسے کوئی مل کے جا رہا ہو
جیسے کوئی یاد آرہا ہو
جیسے کوئی جا کے بھول جائے
وعدہ ہو مگر کبھی نہ آئے
جیسے وہ مری متاعِ جاں بھی
بے نام ہو اور بے نشاں بھی
احساس ہے ابتلائے جاں ہا
اظہار ہے فتنۂ زباں ہا
ہے از حرمِ یقیں اک دھند
تاہیکلِ عظمتِ گماں ہا
از مشرقِ نفع و سودِ جلوہ
تا مغربِ ظلمت و زیاں ہا
ایسا ہے کہ یہ جہاں ہو جیسے
تجسیمِ فسونِ داستاں ہا
ایسا ہے کہ یہ مکاں ہو جیسے
آغوشِ وداعِ کارواں ہا
نادیدہ فضا میں کھو گیا ہوں
آپ اپنا خیال ہوگیا ہوں
ہے ذہن میں بیکراں زمانہ
بے جسم خرامِ جاودانہ
اقوام و ملل کی عمر ہی کیا
اک پل ہے سو پل کی عمر ہی کیا
ہم تھے یہ کسی قدر بجا ہے
ہم ہیں یہ خیال ہوگیا ہے
وقت آپ ہی اپنی جاں کنی ہے
آنات کی روح کھنچ رہی ہے
یہ ہستیء ناصبور کیا ہے
میں کون ہوں یہ شعور کیا ہے
آنات میں بٹ کے رہ گیا ہوں
نقطوں میں سمٹ کے رہ گیا ہوں
ہستی کا شہود ہی فنا ہے
جو ہے وہ تمام ہوچکا ہے
جو لمحہ ہے وہ گزر رہا ہے
فریاد کہ وقت مر رہا ہے

ہے تمنا ہم نئے شام و سحر پیدا کریں
اس کو اپنے ساتھ لیں آرائشِ دنیا کریں
ہم کریں قائم خود اپنا اک دبستانِ نظر
اور اسرار رموزِ زندگی افشا کریں
دفتر ِ حکمت کے شک پرور مباحث چھیڑ کر
شہرِ دانش کے نئے ذہنوں کو بہکایا کریں
اپنے فکر ِ تازہ پرور سے بہ اندازِ نویں
حکمتِ یونان و مصر و روم کا احیا کریں
ہو خلل انداز کوئی بھی نہ استغراق میں
ہم یونہی تا دیر آں سوئے افق دیکھا کریں
رات دن ہوں کائناتی مسئلے پیشِ نظر
اور جب تھک جائیں تو اس شوخ کو چھیڑا کریں
جا کے ہر زخمی سے مانگیں رخصتِ مرہم نہی
ہر پریشاں حال رہرو کے قدم چوما کریں
مست ہو کر ، سیرگاہِ شامِ مے نوشی میں ہم
لڑکھڑائیں اور اپنے علم کو رسوا کریں
لڑکھڑاتے گنگناتے جھومتے گاتے ہوئے
بے خودی کی آخری حد تک چلے جایا کریں
 زندگی کے مسئلے کچھ اور بھی ہیں جانِ عزیز
یاوہ گوئی کی بھی حد ہے سوچ کر بولا کریں

تیرے بغیر بھی فطرت نے لی ہے انگڑائی
چمن میں تیرے نہ ہونے پہ بھی بہار آئی
مرا غرورِ نظر ناروا نہیں لیکن
ہے ماروائے نظر بھی جہاں کی رعنائی
جُدا سمجھ نہ خدا کو جہانِ فطرت سے
خدا ہے خود اِسی فطرت کی ایک خودرائی
نیازِ غیر سے کیا کام خود نمائی کو
ہے خود ہی انجمن آرا یہ انجمن آرائی
ہے فرق دیر و حرم میں فقط یہی کہ حیات
یہاں ہے جانِ تمنا ، وہاں تمنائی
میں کیا بتاؤں کسی بے وفا کی مجبوری
کبھی خیال جو آیا تو آنکھ بھر آئی
ستم نگاہ کا اپنی ہمیں نہ بھولے گا
یہ کم نہیں کہ تیرے دل میں آگ بھڑکائی

ذکر گل ہو خار کی باتیں کریں
لذت و آزار کی باتیں کریں
ہے مشامِ شوق محرومِ شمیم
زلفِ عنبر بار کی باتیں کریں
دور تک خالی ہے صحرائے نظر
آہوئے تاتار کی باتیں کریں
آج کچھ ناساز ہے طبعِ خرد
نرگسِ بیمار کی باتیں کریں
یوسفِ کنعاں کا ہو کچھ تذکرہ
مصر کے بازار کی باتیں کریں
آؤ اے خفتہ نصیبو مفلسو !
دولتِ بیدار کی باتیں کریں
جونؔ آؤ کارواں در کارواں
منزل دشوار کی باتیں کریں

کتنے ظالم ہیں جو یہ کہتے ہیں
توڑ لو پھول ، پھول چھوڑو مت
باغباں ہم تو اس خیال کے ہیں
دیکھ لو پھول ، پھول توڑو مت

دستِ جنوں کو کارِ نمایاں بھی ہیں عزیز
یاروں کو شہر بھر کے گریباں بھی ہیں عزیز
اب عقل و آگہی سے ہے اپنا معاملہ
لیکن معاملاتِ دل و جاں بھی ہیں عزیز
مجموعہء خیال کی تنقید بھی ہے فرض
پر ہم کو قصہ ہائے بزرگاں بھی ہیں عزیز
ناقوسیانِ شہرِ بتاں سے ہے ربطِ خاص
سر منزلِ حرم کے حدیٰ خواں بھی ہیں عزیز
یوں ہو کہ ہند و پاک کی سرحد پہ جا بسیں
ہندو بھی ہیں عزیز ،مسلماں بھی ہیں عزیز
برگشتگانِ جادئہ عرفاں میں ہے شمار
سر گشتگانِ جادئہ عرفاں بھی ہیں عزیز
شبخوں ہی اب نبردِ کہن کا علاج ہے
پر کچھ سحر رخانِ شبستاں بھی ہیں عزیز

دھرم کی بانسری سے راگ نکلے
وہ سوراخوں سے کالے ناگ نکلے
رکھو دیر و حرم کو اب مقفل
کئی پاگل یہاں سے بھاگ نکلے
وہ گنگا جل ہو یا ہو آبِ زمزم
یہ وہ پانی ہیں جن سے آگ نکلے
خدا سے لے لیا جنت کا وعدہ
یہ زاہد تو بڑے ہی گھاگ نکلے
ہے آخر آدمیت بھی کوئی شے
ترے دربان تو بُل ڈاگ نکلے
یہ کیا انداز ہے اے نکتہ چینو !
کوئی تنقید تو بے لاگ نکلے
پلایا تھا ہمیں امرت کسی نے
مگر منہ سے لہو کے جھاگ نکلے

ستم شعار ، نشانے تلاش کرتے ہیں
کرو گلہ تو بہانے تلاش کرتے ہیں
نشاطِ قصر نشینی کا تذکرہ نہ کرو
ابھی تو لوگ ٹھکانے تلاش کرتے ہیں
تمہاری زلف کی خاطر بہ ایں پریشانی
وہ صرف ہم ہیں جو شانے تلاش کرتے ہیں
جنہوں نے خود ہی بگاڑا ہے اپنے چہروں کو
وہ لوگ آئینہ خانے تلاش کرتے ہیں
دلِ حزیں ترے نالوں میں شائقینِ ہنر
بصد خلوص ترانے تلاش کرتے ہیں
حقیقتیں کہ ہیں سنگیں، انھیں بھلانے کو
حقیقتوں میں فسانے تلاش کرتے ہیں
کبھی خرابہ نشینوں پہ طنز مت کرنا
یہی تو ہیں جو خزانے تلاش کرتے ہیں

مہک اٹھا ہے آنگن اس خبر سے
وہ خوشبو لوٹ آئی ہے سفر سے
جدائی نے اُسے دیکھا سرِبام
دریچے پر شفق کے رنگ برسے
میںِاس دیوار پر چڑھ تو گیا تھا
اُتارے کون اب دیوار پر سے
گلہ ہے اک گلی سے شہرِدل کی
میں لڑتاپھر رہا ہوں شہر بھر سے
اسے دیکھے زمانے بھر کا یہ چاند
ہماری چاندنی سائے کو ترسے
مرے مانند گزرا کر میری جان
کبھی تو خود بھی اپنی رہ گزر سے

کیا ہے جو غیر وقت کے دھاروں کے ساتھ ہیں
وہ آئے ہم تو اس کے اشاروں کے ساتھ ہیں
اک معرکہ بہار و خزاں میں ہے ان دنوں
ہم سب جواں مذاق بہاروں کے ساتھ ہیں
نادیدہ راہ لوگ ہوئے محملوں پہ بار
منزل شناس لوگ قطاروں کے ساتھ ہیں
حیرت یہ ہے کہ راہروانِ حریمِ ناز
سب کچھ لٹا کے شکر گزاروں کے ساتھ ہیں
ہم کو مٹا نہ دیں یہ زمانے کی مشکلیں
لیکن یہ مشکلیں تو ہزاروں کے ساتھ ہیں

کچھ دشت اہلِ دل کے حوالے ہوئے تو ہیں
ہمراہ کچھ جنوں کے رسالے ہوئے تو ہیں
مانا بجھے ہیں تیرِ سُخن، زہرِ طنز میں
سانچے میں التفات کے ڈھالے ہوئے تو ہیں
گر ہو سکا نہ چارئہ آشفتگی تو کیا
آشفتہ سَر کو لوگ سنبھالے ہوئے تو ہیں
وابستگانِ زُلف سے کھنچنا نہ چاہیے
کچھ پیچ تیری زُلف میں ڈالے ہوئے تو ہیں
وحشت میں کچھ خبر ہی نہیں کیا لکھا گیا
اوراق چند، صُبح سے کالے ہوئے تو ہیں

اب جنوں کب کسی کے بس میں ہے
اُس کی خوشبو نفس نفس میں ہے
حال اس صید کا سنایئے کیا؟
جس کا صیاد خود قفس میں ہے
کیا ہے گر زندگی کا بس نہیں چلا
زندگی کب کسی کے بس میں ہے
غیر سے رہیو تُو ذرا ہشیار
وہ ترے جسم کی ہوس میں ہے
پا شکستہ پڑا ہوا ہوں مگر
دل کسی نغمہ ءِ جرس میں ہے
جونؔ ہم سب کی دسترس میں ہیں
وہ بھلا کس کی دسترس میں ہے

نہ کر قبول تماشائی ءِ چمن ہونا
ہے تجھ کو نازشِ نسرین و نسترن ہونا
ابھی تو زور پہ سودا ہے بت پرستی کا
خدا دکھائے برہمن کا بت شکن ہونا
کروں میں کیا رہِ ہستی کے پیچ و خم کا گلہ
عزیز ہے تری زلفوں کا پر شکن ہونا
کوئی صدا مرے کانوں میں اب نہیں آتی
ستم ہوا ترے نغموں کا ہم وطن ہونا
یہ دلبری یہ نزاکت یہ کارِ شوق و طلب
مٹا گیا مجھے شیریں کا کوہ کن ہونا
ہجومِ غم میں سجائی ہے میں نے بزمِ خیال
نظر جھکا کے ذرا پھر تو ہم سخن ہونا

بھائی (حضرت رئیس امروہوی) کی نذر
تشنہ کامی کی سزا دو تو مزا آ جائے
تم ہمیں زہر پلا دو تو مزہ آجائے
میرِ محفل بنے بیٹھے ہیں بڑے ناز سے ہم
ہمیں محفل سے اٹھا دو تو مزہ آجائے
تم نے احسان کیا تھا جو ہمیں چاہا تھا
اب وہ احسان جتا دو تو مزہ آجائے
اپنے یوسف کو زلیخا کی طرح تم بھی کبھی
کچھ حسینوں سے ملا دو تو مزہ آجائے
چین پڑتا ہی نہیں ہے تمہیں اب میرے بغیر
اب جو تم مجھ کو گنوا دو تو مزہ آجائے

ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں
اور ستم یہ کہ ہم تمھارے ہیں
دلِ برباد یہ خیال رہے
اُس نے گیسو نہیں سنوارے ہیں
ان رفیقوں سے شرم آتی ہے
جو مرا ساتھ دے کے ہارے ہیں
اور تو ہم نے کیا کِیا اب تک
یہ کیا ہے کہ دن گزارے ہیں
اس گلی سے جو ہو کے آئے ہوں
اب تو وہ راہرو بھی پیارے ہیں
جوؔن ہم زندگی کی راہوں میں
اپنی تنہا روی کے مارے ہیں

ہو بزمِ راز تو آشوبِ کار میں کیا ہے
شراب تلخ سہی ایک بار میں کیا ہے
مآلِ کوہ کنی بھی نہ ہو سکا حاصل
نجانے حیلۂ شیریں شکار میں کیا ہے
جواب کچھ نہ ملے گا مگر سوال تو کر
کہ سوزِ غنچہ و صوتِ ہزار میں کیا ہے
ستم شعار نے خود کتنے زخم کھائے ہیں
کبھی شمار تو کرنا شمار میں کیا ہے
نزاکتوں نے نچوڑا ہے محنتوں کا لہو
نگار خانہء شہر و دیار میں کیا ہے
یہ انبساطِ گلستاں یہ ارتعاشِ نسیم
اگرچہ کچھ بھی نہ ہوں اعتبار میں کیا ہے
غبارِ رنگ فضا ہی میں پرفشاں رہتا
اس اہتمامِ نشستِ غبار میں کیا ہے

میری عقل و ہوش کی سب حالتیں
تم نے سانچے میں جنوں کے ڈھال دیں
کر لیا تھا میں نے عہد ترک عشق
تم نے پھر بانہیں گلے میں ڈال دیں

دل کے ارمان مرتے جاتے ہیں
سب گھروندے بکھرتے جاتے ہیں
محملِ صبحِ نو کب آئے گی
کتنے ہی دن گزرتے جاتے ہیں
مسکراتے ضرور ہیں لیکن
زیرِ لب آہ بھرتے جاتے ہیں
تھی کبھی کوہ کن مری شیریں
اب تو آداب برتے جاتے ہیں
بڑھتا جاتا ہے کاروانِ حیات
ہم اُسے یاد کرتے جاتے ہیں
شہر آباد کر کے شہر کے لوگ
اپنے اندر بکھرتے جاتے ہیں
روز افزوں ہے زندگی کا جمال
آدمی ہیں کہ مرتے جاتے ہیں
جونؔ یہ زخم کتنا کاری ہے
یعنی کچھ زخم بھرتے جاتے ہیں

مستیِٔ حال کبھی تھی، کہ نہ تھی، بھول گئے
یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی، بھول گئے
حرمِ ناز و ادا تجھ سے بچھڑنے والے
بت گری بھول گئے، بت شکنی بھول گئے
کوچہء کج کلہاں تیرے وہ ہجرت زدگاں
خود سری بھول گئے خود نگری بھول گئے
یوں مجھے بھیج کے تنہا سرِ بازارِ فریب
کیا مرے دوست مری سادہ دلی بھول گئے
میں تو بےحس ہوں، مجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں روشِ چارہ گری بھول گئے
مجھے تاکیدِ شکیبائی کا بھیجا جو پیام
آپ شاید مری شوریدہ سری بھول گئے
اب میرے اشکِ محبت بھی نہیں آپ کو یاد
آپ تو اپنے ہی دامن کی نمی بھول گئے
اب مجھے کوئی دلائے نہ محبت کا یقیں
جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وہی بھول گئے
اور کیا چاہتی ہے گردشِ ایام کہ ہم
اپنا گھر بھول گئے، ان کی گلی بھول گئے
کیا کہیں کتنی ہی باتیں تھیں جو اب یاد نہیں
کیا کریں ہم سے بڑی بھول ہوئی، بھول گئے

کبھی جب مدتوں کے بعد اس کا سامنا ہوگا
سوائے پاسِ آدابِ تکلف اور کیا ہوگا
یہاں وہ کون ہے جو انتخابِ غم پہ قادر ہو
جو مل جائے وہی غم دوستوں کا مدعا ہوگا
نویدِ سر خوشی جب آئے گی اس وقت تک شاید
ہمیں زہرِ غمِ ہستی گوارا ہو چکا ہوگا
صلیبِ وقت پر میں نے پکارا تھا محبت کو
مری آواز جس نے بھی سنی ہوگی ہنسا ہوگا
ابھی اک شورِ ہائے ہو سنا ہے ساربانوں نے
وہ پاگل قافلے کی ضد میں پیچھے رہ گیا ہوگا
ہمارے شوق کے آسودہ و خوش حال ہونے تک
تمہارے عارض و گیسو کا سودا ہو چکا ہوگا
نوائیں، نکہتیں، آسودہ چہرے، دل نشیں رشتے
مگر اک شخص اس ماحول میں کیا سوچتا ہوگا
ہنسی آتی ہے مجھ کو مصلحت کے ان تقاضوں پر
کہ اب اک اجنبی بن کر اسے پہچاننا ہوگا
دلیلوں سے دوا کا کام لینا سخت مشکل ہے
مگر اس غم کی خاطر یہ ہنر بھی سیکھنا ہوگا
وہ منکر ہے تو پھر شاید ہر اک مکتوبِ شوق اس نے
سر انگشتِ حنائی سے خلاؤں میں لکھا ہوگا
ہے نصفِ شب، وہ دیوانہ ابھی تک گھر نہیں آیا
کسی سے چاندنی راتوں کا قصہ چھڑ گیا ہوگا
صبا !شکوا ہے مجھ کو ان دریچوں سے ،دریچوں سے ؟
دریچوں میں تو دیمک کے سوا اب اور کیا ہوگا

ہم غزال اک ختن زمیں کے ہیں
زخم خوردہ کسی حسیں کے ہیں
اے شکنجِ غمِ جاں، ہم لوگ
شکنِ زلفِ عنبریں کے ہیں
اشک بے تاب ہیں سرِ مژگاں
تذکرے اُس کی آستیں کے ہیں
ہے عجب انقلابِ وقت کہ اب
وہ کہیں کے ہیں، ہم کہیں کے ہیں
شہرِ محنت میں بھی ہیں یاد وہ اشک
اب جو قطرے میری جبیں کے ہیں
اے خوش اندیشگانِ عیشِ یقیں
ہم بھی اک دل شکن یقیں کے ہیں
آ بسے ہیں ترے دیار سے دور
رہنے والے تو ہم وہیں کے ہیں

غم ہائے روزگار میں الجھا ہوا ہوں میں
اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آ رہا ہوں میں
ہاں اس کے نام میں نے کوئی خط نہیں لکھا
کیا اس کو یہ لکھوں کہ لہو تھوکتا ہوں میں
کربِ غمِ شعور کا درماں نہیں شراب
یہ زہر بے اثر ہے اسے پی چکا ہوں میں
اے زندگی! بتا کہ سرِ جادئہ شباب
یہ کون کھو گیا ہے کسے ڈھونڈتا ہوں میں
اے وحشتو! مجھے اسی وادی میں لے چلو
یہ کون لوگ ہیں یہ کہاں آ گیا ہوں میں
شعر و شعور اور یہ شہرِ شمار و شور
بس ایک قرض ہے جو ادا کر رہا ہوں میں
یہ تلخیاں یہ زخم یہ ناکامیاں یہ غم
ہے کیا ستم کہ اب بھی ترا مدعا ہوں میں
میں نے غمِ حیات میں تجھ کو بھلا دیا
حسنِ وفا شعار بہت بے وفا ہوں میں
عشق ایک سچ تھا ، تجھ سے جو بولا نہیں کبھی
عشق اب وہ جھوٹ ہے جو بہت بولتا ہوں میں
معصوم کس قدر تھا میں آغازِ عشق میں
اکثر تو اس کے سامنے شرما گیا ہوں میں
دنیا مرے ہجوم کی آشوب گاہ ہے
اور اپنے اس ہجوم میں تنہا کھڑا ہوں میں
وہ اہلِ شہر کون تھے، وہ شہر تھا کہاں
ان اہلِ شہر میں سے ہوں، اس شہر کا ہوں میں

قطعات
ہے محبت حیات کی لذت
ورنہ کچھ لذتِ حیات نہیں
کیا اجازت ہے ایک بات کہوں
وہ مگر خیر کوئی بات نہیں

چاند کی پگھلی ہوئی چاندی میں
آؤ کچھ رنگِ سخن گھولیں گے
تم نہیں بولتی ہو مت بولو
ہم بھی اب تم سے نہیں بولیں گے

مری جب بھی نظر پڑتی ہے تجھ پر
مری گلفام ، جانِ دل ربائی
مرے جی میں یہ آتا ہے کہ مل دوں
ترے گالوں پہ نیلی روشنائی

وہ کسی دن نہ آ سکے پر اسے
پاس وعدے کو ہو نبھانے کا
ہو بسر انتظار میں ہر دن
دوسرا دن ہو اس کے آنے کا

جو حقیقت ہے اس حقیقت سے
دور مت جاؤ لوٹ بھی آؤ
ہو گئیں پھر کسی خیال میں گم
تم مری عادتیں نہ اپناؤ

شرم ، دہشت ، جھجھک ، پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
”آپ ، وہ ، جی ، مگر “ یہ سب کیا ہے
تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں

پسینے سے مرے اب تو یہ رومال
ہے نقدِ نازِ الفت کا خزینہ
یہ رومال اب مجھی کو بخش دیجے
نہیں تو لائیے میرا پسینہ